اب بی سی سی آئی ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے
صاف ہوگیا ہے کہ بی سی سی آئی چاہے جتنی ٹال مٹول کرے کرکٹ بورڈ میں لوڈھا کمیٹی کی اصلاح کی سفارشیں لاگو ہوکر رہیں گی۔ سپریم کورٹ نے کوئلہ گھوٹالہ کے اجاگر کرنے والے سابق سی اے جی چیف ونود رائے کی سربراہی والی چار نفری ایڈمنسٹریشن کمیٹی کو سونپ دی ہے۔ کمیٹی میں مشہور تاریخ داں رام چندر گوہا، انڈیا وومن کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ڈائنا ایڈولجی اور مالیاتی کمپنی آئی ڈی ایف سی کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او وکرم لمے شامل ہیں۔ بی سی سی آئی کے چیئرمین انوراگ ٹھاکر اور سکریٹری اجے شرکے کو عہدے سے ہٹائے جانے کے ایک ماہ کے اندر یہ تقرریاں ہوئی ہیں۔ کورٹ پہلے ہی صاف کرچکی تھی کہ لوڈھا کمیٹی کی سفارشیں ہر حال میں لاگو کرنی پڑیں گی۔ حالانکہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دیش کا کرکٹ مستقبل طے کرنے کی ذمہ داری ان لوگوں کے پاس ہونی چاہئے جنہیں کرکٹ کھیل کی سمجھ ہونے کے ساتھ کھیل انتظام کی بھی جانکاری ہو۔ بدقسمتی سے کہا جائے گا کہ اس میں شبہ نہیں کہ بی سی سی آئی نے بھارت میں کرکٹ کو بڑھانے میں قابل قدر تعاون دیا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے بی سی سی آئی کی حالت جو ہوگئی ہے اس کے عملے کے لوگ ہی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے اسے منمانے ڈھنگ سے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح چلایا۔ یہاں تک کہ قاعدے قانون سے بھی خود کو اوپر سمجھنے لگے تھے۔ آئی پی ایل کے میچوں میں سٹہ بازی ، اسپارٹ فکسنگ کے سبب ہی سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور اس کے نتیجے میں لوڈھا کمیٹی بنائی گئی۔
اب منتظمین کی تقرری کے بعد یہ تو صاف ہوگیا ہے کہ لوڈھا کمیٹی کی سفارشیں لاگو کرکے بی سی سی آئی کی صفائی ہونا طے ہے۔ سپریم کورٹ میں اس فیصلے میں سختی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی سی سی آئی کے بعد مرکزی سرکار نے سفارشوں میں رکاوٹ بنے کھیل سکریٹری کو ایڈمنسٹریٹر بنانے کی تجویز ایک دم سے مسترد کردی ہے۔ اصل میں سفارشوں کے مطابق کوئی بھی افسر بورڈ میں عہدیدار نہیں بن سکتا اس لئے کورٹ نے کھیل سکریٹری کو انتظامیہ کے پینل میں لینے سے پرہیز کیا۔ ماننا پڑے گا کہ بی سی سی آئی نے دیش میں کرکٹ کو بڑھاوا دینے کا کام بخوبی کیا اور کرکٹ کو گھر گھر کا کھیل بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ اگر بھارت اس میدان میں دنیا میں اپنا دبدبہ بنانے میں کامیاب رہا تو اس کا سہرہ کافی حدتک بی سی سی آئی کو جاتا ہے۔ نئے منتظمین کے لئے جہاں بی سی سی آئی برائیوں پر روک لگانا ہے وہیں انہیں خاص مقصد کرکٹ کی تقری کو نظر انداز نہیں کرنا ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ ڈائنا کو چھوڑ کر کوئی اور بھی منتظم کرکٹر نہیں ہے لیکن چاہے ونود ہوں یا لمے یا گوہان کرکٹ سے انجان بھی نہیں ہیں۔
اب منتظمین کی تقرری کے بعد یہ تو صاف ہوگیا ہے کہ لوڈھا کمیٹی کی سفارشیں لاگو کرکے بی سی سی آئی کی صفائی ہونا طے ہے۔ سپریم کورٹ میں اس فیصلے میں سختی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی سی سی آئی کے بعد مرکزی سرکار نے سفارشوں میں رکاوٹ بنے کھیل سکریٹری کو ایڈمنسٹریٹر بنانے کی تجویز ایک دم سے مسترد کردی ہے۔ اصل میں سفارشوں کے مطابق کوئی بھی افسر بورڈ میں عہدیدار نہیں بن سکتا اس لئے کورٹ نے کھیل سکریٹری کو انتظامیہ کے پینل میں لینے سے پرہیز کیا۔ ماننا پڑے گا کہ بی سی سی آئی نے دیش میں کرکٹ کو بڑھاوا دینے کا کام بخوبی کیا اور کرکٹ کو گھر گھر کا کھیل بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ اگر بھارت اس میدان میں دنیا میں اپنا دبدبہ بنانے میں کامیاب رہا تو اس کا سہرہ کافی حدتک بی سی سی آئی کو جاتا ہے۔ نئے منتظمین کے لئے جہاں بی سی سی آئی برائیوں پر روک لگانا ہے وہیں انہیں خاص مقصد کرکٹ کی تقری کو نظر انداز نہیں کرنا ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ ڈائنا کو چھوڑ کر کوئی اور بھی منتظم کرکٹر نہیں ہے لیکن چاہے ونود ہوں یا لمے یا گوہان کرکٹ سے انجان بھی نہیں ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں