سنیل جوشی قتل کانڈ میں سادھوی پرگیہ بری

2007ء میں راشٹریہ لوک سیوک سنگھ کے پرچارک سنیل جوشی کے قتل کے معاملے میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر سمیت 8 ملزمان کو دیواس کی عدالت نے سبھی الزامات سے بری کردیا ہے۔ سنیل جوشی کا قتل 29 دسمبر2007 ء میں دیواس کی چونا کان میں ہواتھا۔ سادھوی پرگیہ کو بدھوار کوبری کرتے ہوئے جو ریمارکس دئے ہیں انہیں سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ قتل جیسے حساس ترین معاملے میں دیواس پولیس اور این آئی اے دونوں ہی ایجنسیوں نے پہلے سے اور نامعلوم اسباب کی سنجیدگی سے جانچ نہیں کی ہے۔ جس طرح سے بہت ہی بے توجہی کے ساتھ اور معمولی خانہ پوری کے ساتھ مناسب ثبوت اکھٹے کئے گئے ہیں وہ الزامات کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ ایسے تضاد خاکہ کے ثبوت سے وکیل صفائی کے بیان پر ہی سنگین شبہ پیدا ہوگیا ہے۔ یہ کہنا تھا کہ پہلی نظر میں اپرسیشن جسٹس راجندر ایم آپاٹے کا تبصرہ غور طلب ہے کہ 29 دسمبر 2007ء کو سنگ کے سابق پرچارک سنیل جوشی کوبالگڑھ کی چونا کان علاقہ میں گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ مدھیہ پردیش پولیس کو ثبوت نہیں ملے تو اس نے کیس بند کردیا۔ راجستھان اے ٹی ایس نے ہرشد سولنکی نامی شخص کی گرفتاری کر اس قتل کانڈ کا پردہ فاش کیا۔ پھر بھی مدھیہ پردیش پولیس نے دیواس کے باشندے رامائن پٹیل اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو ملزم بنایا۔ پرواسودیو پرمار ،آنند راج کٹاریہ کو بھی ملزم بنایا گیا ۔ تبھی ہائی کورٹ نے این آئی اے کو جانچ کرنے کی ہدایت دی جس نے تین ملزم راجندر چودھری، جتندر شرما، لوکیش شرما کو ملزم بنایا۔ 2014ء میں اسپیشل کورٹ نے این آئی اے کے ذریعے دفعات نہ لگانے پر کیس کو واپس ضلع عدالت دیواس کو ٹرانسفر کردیا گیا۔ یہاں پولیس اور این آئی اے کی کہانی الگ الگ ہونے سے کیس کمزور ہوگیا۔ وکیل صفائی آج تک یہ کھلے طور پر صاف نہیں کرپایا کہ سنیل جوشی کا قتل کس لئے کیا گیا؟ ان کا بڑھتا قد،سیاسی رنجش، راز دار یا کوئی اور وجہ تھی؟ فیصلے کے وقت ملزمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر بیماری کے چلتے کورٹ نہیں آئیں اور وہ جوڈیشیل حراست میں بھوپال کے ہسپتال میں علاج کروا رہی ہے حالانکہ اس کیس میں تو سادھوی بری ہوگئی ہے لیکن مالیگاؤں بلاسٹ میں اسے ابھی تک ضمانت نہیں ملی اس لئے جب تک کیس میں بھی ان کی ضمانت نہ ہو انہیں حراست میں رہنا پڑے گا۔ سبھی ملزم بری ہوگئے ہیں۔ ایسے میں سرکار کیا فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرے گی؟ این آئی اے جیسی ایجنسی بھی جانچ کے بعد ملزمہ کے خلاف ثبوت نہیں اکٹھا کرپائی اس سے تو لگتا ہے کہ معاملہ سیاسی اغراز پر مبنی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!