ٹیپو تو سائیکل چلائیں گے لیکن ملائم اب کیا کریں گے

اترپردیش اسمبلی چناؤ میں پولنگ سے پہلے ہی وزیر اعلی اکھلیش یادو کو ایک بڑی جیت حاصل ہوئی ہے۔ اکھلیش یادو جنہیں ملائم سنگھ یادو پریوار میں ’’ٹیپو‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ، کو چناؤ کمیشن نے چناؤ نشان ’’سائیکل‘‘ سونپ دیا ہے۔ چناؤ کمیشن نے سماجوادی پارٹی کی ایک طرح سے تقسیم کردی ہے۔ چناؤ کمیشن کا یہ فیصلہ ملائم سنگھ یادو کی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی ہار کی شکل میں مانا جائے گا۔ جس پارٹی کوانہوں نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے کھڑا کیاوہ ایک جھٹکے میں ہی ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ پیر کو پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو کے تمام دعوؤں کو درکنار کرتے ہوئے اکھلیش گروپ کو ہی اصلی سپا مانا۔ بتایا جاتا ہے کہ ملائم سنگھ سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ کب کیا داؤ چلنا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں لیکن اس بار وہ مات کھا گئے۔ سیاسی دھرندر ہونے کے باوجود وہ ہوا کا رخ نہیں بھانپ پائے۔ پارٹی بھی گئی اور سائیکل بھی گئی اور لڑکا بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ اب ملائم کے سامنے تین ہی متبادل بچے ہیں۔ پہلا کورٹ جاکر چناؤ کمیشن کے فیصلے پر اسٹے کی اپیل کریں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ سپریم کورٹ اب ایسا کرے گا کیونکہ چناؤ کمیشن نے ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر ہی یہ ایسا اہم فیصلہ دیا ہے۔ رام گوپال یادو نے کہا کہ ملائم گروپ کوئی ٹھوس ثبوت کمیشن کے سامنے نہیں رکھ سکا۔ اس میں فائدہ بھی نہیں دکھائی دیتا کیونکہ چناؤ کمیشن یوپی چناؤ کا نوٹیفکیشن جاری کررہا ہے۔ ایک بار نوٹیفکیشن جاری ہوجائے تو معاملے میں عدلیہ کی مداخلت کی گنجائش کم ہوجاتی ہے دوسرا یہ کہ ملائم اب شیو پال اینڈ کمپنی کا ساتھ چھوڑ کر اکھلیش یادو کو قومی صدر تسلیم کرلیں اور سپا کے سرپرست کا کردار منظور کرلیں۔ ان کے سمدھی لالو پرساد یادو نے بھی یہ صلاح دی ہے کہ غصہ تھوک کر فرقہ وارانہ طاقتوں کو ہرانے کے لئے اکھلیش کو آشیرواد دیں۔ لیکن ہمیں شبہ ہے کہ ملائم اس متبادل کو چنیں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ملائم سیاسی سنیاس کے لئے تیار ہیں، ایسا شاید ہی وہ کرنے کو تیار ہوں۔ آخری متبادل ملائم سنگھ الگ چناؤ لڑ کار عوام کو اپنا موقف بتائیں ۔ اگر اکھلیش گروپ سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں لے آئے تو انہی ہی اصلی سماجوادی پارٹی مانا جائے گا لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔ اب جب چناؤ نشان پارٹی کا بھی فیصلہ ہوگیا ہے تو سب کی توجہ چناؤ پر لگ جائے گی۔ اکھلیش گروپ کا ماننا ہے کہ پورے تنازعے میں اکھلیش کو بہت فائدہ ہوا ہے اور ان کا پھر اقتدار میں آنا طے ہے۔ مہا گٹھ بندھن بنانے کا امکان اس فیصلے سے بڑھ گیا ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو بھاجپا ،بسپا کے لئے چنوتی بڑھ جائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!