کیا سدھو کی گھر واپسی کانگریس کو جتا پائے گی

آتشی بلے بازی اور جملوں سے بھری کرکٹ کمنٹری میں کبھی نہ رکنے والے قہقہہ لگانے والے نوجوت سنگھ سدھو نے کانگریس کا دامن تھام کر ایک طرح سے گھر واپسی کرلی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی سدھو نے مہینوں سے جاری قیاس آرائیوں پر بھی روک لگادی ہے۔ بھاجپا سے نکلنے کے بعد عام آدمی پارٹی کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے جب وہ کانگریس میں باقاعدہ شامل ہوگئے ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ ان کی گھر واپسی ہے۔ موقعہ پرستی ہے یا حقیقت؟ بیشک وہ پیدائشی کانگریسی ہو سکتے ہیں لیکن کسی کی گھر واپسی اتنی لمبی نہیں ہوتی جتنی کے نوجوت سنگھ سدھو کی رہی ہے۔ انہوں نے پچھلے18 سال بعد راجیہ سبھا اور بھاجپا سے استعفیٰ دیاتھا اور تبھی سے وہ نیا ٹھکانا تلاش کررہے تھے۔ عام آدمی پارٹی سے کئی دنوں تک ناکام سودے بازی کے بعد سدھو کے لئے سوائے کانگریس کے اور کوئی متبادل نہیں بچا تھا۔ سدھو اور بھاجپا کا بنیادی اختلاف اکالیوں کو لیکر تھا۔ اکالیوں کے وہ کٹر مخالف تھے اور بھاجپا اکالیوں کے ساتھ اپنا گٹھ بندھن توڑنے کو تیار نہیں تھی۔ ممکن ہے بھاجپا کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے۔ سدھو نے پنجاب کی سیاست میں اپنا الگ مقام بنایاہے اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی امرتسر سیٹ جیت کر ثابت کردیا کہ وہ جنتا سے جڑے نیتا ہیں۔ یقینی طور پر نوجوت کا کانگریس میں شامل ہونا پارٹی کے لئے جوش بڑھانے والا واقعہ ہے۔ سدھو کی بیوی جو کہ امرتسر کی سابقہ سیٹ سے ممبر اسمبلی رہیں ، پہلے ہی کانگریس میں شامل ہو چکی ہیں۔ سدھو کو پارٹی میں شامل کرنے اور وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل کے خلاف کیپٹن امرندر سنگھ کو امیدوار بنانے کے پیچھے کانگریس کی حکمت عملی جگ ظاہر ہے۔ یہ عام خیال ہے کہ وقتاً فوقتاً ہوئے کئی تجزیوں نے بھی اس کے اشارے دئے ہیں۔ ایک دہائی سے راج کررہے بادل اقتدار مخالف رجحان کا سامنا کررہے ہیں۔ اکالی بھاجپا سرکار سے چھٹکارہ دلانے میں اہل ہونے کا بھروسہ جو جگا سکے گا بازی اسی کے ہاتھ لگے گی۔ اگر عام آدمی پارٹی کا ابھار نہ ہوا ہوتا تو کانگریس کو اس بار زیادہ فکرکرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن عام آدمی کی بھر پور موجودگی نے یہ سوال کھڑا کردیا ہے۔ اپوزیشن میں نمبر ایک طاقت کون ہے؟ بادل پریوار کو بھی اس مرتبہ اینٹی کمبینسی کا احساس ہوگا، لیکن ان کی امید اس پر ٹکی ہے کہ اقتدار مخالف ووٹوں کا کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے درمیان تقریباً برابر کا بٹوارہ ہوجائے۔ نتیجہ کیا ہوگا اس کا پتہ تو شاید مارچ ہی میں چلے گا مگر یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پنجاب میں حکمراں اتحاد کے لئے یہ چناؤ چیلنج سے بھرا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!