نوٹ بندی کا فیصلہ تاریخ بدلے گا

نوٹ بندی کو 13 دن ہوچکے ہیں اس دوران جنتا کے سامنے کئی طرح کی مشکلیں آئیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنی چھپاکر رکھی گئی بچت کا استعمال کیا تو کسی نے اپنے بچے کی گلک توڑ کر کام چلایا۔ دوکانداروں سے ادھاری بھی جم کر ہوئی۔ کسی نے پلاسٹک منی سے کام چلایا تو کسی نے پے ٹی ایم کا سہارا لیا۔ سبھی لوگوں نے مانا کہ ان کے یہ دن نہ بھولنے والے تھے۔ حالانکہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے آرام سے انتظام کرلیا۔ وزیر اعظم کے یہ نوٹ بندی کے فیصلے کو عام طور پر لوگوں نے سراہا ہے۔ ایتوار کے لوگ ہمارے سامنے جو سروے آئے۔ ایک تھا ہندی روزنامہ ’’دینک جاگرن‘‘ و ایجنسی مارکٹنگ ڈولپمنٹ اینڈ ریسرچ ایسوسی ایٹ (ایم ڈی آر اے) کا اور دوسرا تھا ہندی اخبار رونامہ ’ہندوستان‘ کو لائیو ہندوستان بھی کہا جاتا ہے۔ دینک جاگرن کے سروے کے مطابق دیش کی85 فیصدی عوام نریندر مودی حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے سے خوش ہیں۔دہلی، ممبئی، کولکتہ ، بنگلورو، لکھنؤ، وجے واڑہ جیسے شہروں و آس پاس کے دیہات میں الگ الگ طبقے کے 825 لوگوں سے رابطہ قائم کیا گیا ۔ اس میں 18 سے25 برس کی عمر کے لوگوں کی موجودگی زیادہ تھی۔ یہ سروے 16-17 نومبر کو کرایا گیا تھا۔ دینک۔ ہندوستان کے سروے میں 8 نومبر کو جب وزیر اعظم نے نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا تو انہیں 78 فیصد کی حمایت حاصل تھی یعنی78 فیصد لوگوں نے وزیر اعظم کے اعلان کا خیر مقدم کیا تھا۔ 7 دن بعد 61.93 فیصدی لوگ کالے دھن کے خلاف قدم کا تعاون کرنے کو تیارتھے۔ یا یوں کہیں نوٹ بندی حمایتی قریب 62 فیصدی تھے۔ 10 دن بعد حمایتیوں کی جو تعداد 62 فیصدی تھی وہ گھٹ کر 46 فیصدی رہ گئی۔ اس میں 20.41 فیصدی لوگ ایسے ہیں جن کے خرچوں پر کوئی اثر نہیں پڑا جبکہ 24.25 فیصدی کو خرچ 20-30 فیصدی گھٹانا پڑا۔ تینوں سروے میں 28 ہزار سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ لب و لباب یہ ہے کہ وٹ بندی کے عمل سے لوگ پریشان و حیران ہوئے اور اس وجہ سے جو شروع میں وزیر اعظم کے فیصلے کی حمایت کررہے تھے وہ اب کھل کر مخالفت میں آگئے ہیں۔ آج پورا دیش اس اشو پر متحد ہے۔ دیش میں کالا دھن و کرپشن ختم ہو اور اسی وجہ سے وزیر اعظم کے نوٹ بندی کے فیصلے کی حمایت کررہا ہے۔ کیا نوٹ بندی سے یہ مقصد پورا ہوگا؟ دنیا میں نوٹ بندی کی تاریخ تو زیادہ خوش آئین نہیں رہی دنیا کے کئی ملکوں میں نوٹ بندی یعنی ڈمونیٹائزیشن ہوئی ہے، ہر جگہ وہ فیل ہوئی ہے۔ جنوری1991ء میں سوویت یونین نے میخائل گورباچیف کی قیادت میں روس نے بلیک معیشت پر قابو پانے کے لئے 50 اور 100 روبل (روسی کرنسی) کو واپس لیا تھا۔ مودی نے بھی اسی ٹارگیٹ سے یہ قدم اٹھایا ہے۔ تب روس کی رائج کرنسی میں 50 سے 100 روبل کی موجودگی ایک تہائی تھی۔ حالانکہ گورباچیف کے اس قدم سے مہنگائی روکنے میں کوئی مدد نہیں ملی تھی۔ روس نے یہ قدم لوگوں کا بھروسہ جیتے کے لئے اٹھایا تھا۔ تب وہاں کے حالات (اقتصادی) بیحد خراب تھے۔ گورباچیف کو تب تختہ پلٹ کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد ہی سوویت یونین کا زوال ہوا تھا۔ اس سے سبق سیکھتے ہوئے روس نے 1998ء میں اس قدم کو واپس لے لیا تھا۔ 2010ء میں نارتھ کوریا کے اس وقت کے لیڈر کنگ جانگ ال نے پرانی کرنسی کی قیمت میں سے دو صفر ہٹا دئے تھے۔ یعنی 100 کا نوٹ 1 کا رہ گیا تھا۔ انہوں نے ایسا معیشت کو نئی روح دینے اور کالہ بازاری پر لگام لگانے کے لئے کیا تھا۔ اس وقت وہاں کھیتی بحران کے دور سے گزر رہی تھی اور کوریا غذائی بحران کا سامنا کررہا تھا۔ اس قدم سے نارتھ کوریا کی معیشت بری طرح سے متاثر ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اسی کو لیکر حکمراں پارٹی کے مالیاتی چیف کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ ڈکٹیٹر موبتو ایسے ماہر معاشیات تھے کو 1990ء کی دہائی میں بھاری اقتصادی اتھل پتھل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تب موبتو بھی بینک نوٹ میں اصلاح کے نام پر کئی چیزوں کو عمل میں لائے تھے۔ 1993ء میں سسٹم سے منسوخ کرنسی کو واپس لانے کی اسکیم تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہنگائی بڑھ گئی اور ڈالر کے مقابلے وہاں کی کرنسی میں بھاری گراوٹ آئی تھی۔ 1997ء میں ایک سول وار کے بعد موبتو اقتدار سے بے دخل ہوگئے تھے۔ میانمار میں 1987ء کی فوجی حکومت نے دیش میں رائج 80 فیصدی کرنسی کو غیرمنظور قرار دے دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے بلیک مارکیٹ کو قابو کرنے کے لئے کئی قدم اٹھائے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طالبعلم طبقہ سڑک پر اتر آیا اور بھاری احتجاج کرنے لگے۔ میانمارکو اس قدم سے اقتصادی مورچے پر سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1982ء میں گھانا نے ٹیکس چوری روکنے کے لئے 50روپے کے نوٹ کو منسوخ کردیا تھا۔ گھانا نے پیسے کی ویلیو کو تو کم کرنے اور کرپشن پر قابو پانے کے لحاظ سے بھی ایسا کیا تھا۔ اس سے بلیک منی کا دائرہ کم ہونے کے بجائے بڑھا تھا۔ دیہاتیوں کو میلوں دور چل کر نوٹ بدلوانے بینک پہنچنا پڑتا تھا لیکن طے تاریخ کی حد ختم ہونے کے بعدسارے نوٹ بربادہوگئے۔ 1983ء میں نائیجریامیں محمدبخاری کی قیادت والی فوجی حکومت نے کرپشن کے خلاف قدم اٹھاتے ہوئے نئے نوٹ الگ رنگ میں جاری کئے تھے۔ ایسا محدود وقت میں پرانے نوٹوں کو ختم کرے کے لئے کیا گیا تھا۔ نائیجریا کا یہ قدم بری طرح سے فلاپ ہوا تھا اور مہنگائی کے ساتھ معیشت کی صحت میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔ اس کے بعد بخاری کو تختہ پلٹ کے سبب اقتداربے دخل ہونا پڑا تھا۔ اس لئے وزیراعظم نریندر مودی کا یہ نوٹ بندی کا فیصلہ تاریخ بدلنے والا ثابت ہوگا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!