نوٹ بندی پر بڑھتی ناراضگی شاید دنگوں کا انتظار ہورہا ہے

نوٹ بندی سے ہورہی عوام کو دقت پر سپریم کورٹ و ہائی کورٹ نے مرکزی سرکار کے خلاف سخت تبصرہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کی نوٹ بندی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر بڑی عدالتوں کے غور کرنے پر روک لگانے سے انکارکرتے ہوئے کہا لوگ سنگین طور سے متاثر ہیں اور ایسی حالت میں عدالتی دروازے بند نہیں کئے جاسکتے۔ بینکوں اور اے ٹی ایم کے باہر لمبے قطاروں کو سنگین معاملہ بتاتے ہوئے عدالت نے کہا کیا مرکزی سرکار سڑکوں پر دنگے ہونے کا انتظار کررہی ہے؟ چیف جسٹس ٹی ۔ ایس ۔ ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے 500-1000 کے نوٹ بند کرنے کے نوٹیفکیشن کو مختلف عدالتوں میں چیلنج کرنے والی عرضیوں پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں کو اپنے مسائل کورٹ میں لانے سے نہیں روک سکتے۔ عدالت نے کہا کہ مختلف عدالتوں میں دائر عرضیوں کو دہلی ہائی کورٹ میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ مرکزاس کے لئے منتقلی عرضی دے۔ بنچ نے کہا کہ کچھ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دیکھئے جنتا کس طرح کی پریشانیوں سے روبرو ہورہی ہے، لوگوں کو ہائی کورٹ جانا ہی پڑے گا۔ اگر ہم ہائی کورٹ جانے کا ان کا متبادل بند کردیں گے تو ہمیں پریشانی کی سنگینی کا کیسے پتہ چلے گا؟ لوگوں کے مختلف عدالتوں میں جانے سے ہی مسئلے کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے۔ بڑے نوٹوں کے چلن کو بحال کرنے کے احتجاج میں کولکتہ ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے نریش چندر گپتا اور آئیدم سنہا کی بنچ نے مرکز کے فیصلے کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سرکار نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا اس وجہ سے دیش میں نقدی کا بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ حالانکہ عدالت نے کہا کہ ہم مرکزی سرکار کے فیصلہ منسوخ کرنے کا حکم نہیں دے سکتے۔ لگتا ہے کہ اگلی سماعت میں سپریم کورٹ و ہائی کورٹ نوٹ بندی پر کوئی سخت قدم اٹھا سکتی ہے۔ بینکوں کے باہر جمعہ کو لائن میں تھوڑی کمی ضرور ہوئی ہے۔ صرف 2000 روپے ملنا ہی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ بینکوں میں پرانے نوٹ فٹا فٹ جمع ہورہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 4-5 لاکھ کروڑ روپے پرانے نوٹوں میں جمع ہو چکے ہیں۔ ریزروبینک کی پلاننگ پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ پرانے نوٹوں کو بینک سے واپس منگانے کے لئے ان کی سپلائی بھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کررہی ہے۔ پرانے نوٹوں سے بینکوں کے کرنسی چیسٹ فل ہوچکے ہیں۔ وہاں اور نوٹ رکھنے تک کی جگہ نہیں بچی۔ آر بی آئی، پنجاب نیشنل بینک کے کرنسی چیسٹ کے حکام نے بتایا کہ ریزرو بینک چلن سے واپس ہوئے نوٹوں کو بینکوں سے واپس ہیں مانگ رہا ہے۔ کرسی چیسٹ والے بینک دو مشکلوں سے دوچار ہیں پہلی یہ کہ نوٹوں کے کرنسی چیسٹ پوری طرح خالی ہوچکے ہیں۔ دوسرا یہ یہاں پرانے نوٹ اب رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ آدھی ادھوری تیاری کے ساتھ اتری سرکار کی پول اسی سے کھلتی ہے کہ آس بینکوں کے پاس درکار نئی کرنسی نہیں ہے۔ کبھی سیاہی لگا کر تو کبھی 4500 سے 2000 کی حد کر کے کمی ، جس بینک میں کھاتہ ہے اسی بینک میں جمع کرسکتے ہیں، یہ سب اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ ریزرو بینک کے پاس درکار تعداد میں نئی کرنسی نہیں آسکی ہے۔ ضرورت کے مطابق نئے نوٹ چھاپنے کے لئے ریزرو بینک آف انڈیا کے ذرائع کے مطابق ابھی تک ٹنڈر کارروائی شروع نہیں کی گئی ہے۔ میسور میں بھارت سرکار کی پیپر مل میں تجربے کے طور پر تھوڑے کرنسی کاغذ بنائے گئے تھے، انہی سے کام چلایا جارہا ہے۔ وہاں ضرورت کا پانچ فیصد کاغذ تیار کرنے بھر کی صلاحیت ہے باقی 95 فیصد کاغذ کے لئے امریکہ، انگلینڈ اور جرمنی کی کمپنیوں پر آر بی آئی منحصر کرتا ہے۔ آر بی آئی کے ذریعے وزارت مالیات کو بھیجی گئی رپورٹ کے مطابق نئے نوٹ چھاپنے کے لئے 22 ہزار میٹرک ٹن کرنسی کاغذ کی ضرورت ہوگی۔ اس کی خرید کے لئے جلد سے جلد کارروائی شروع کرنی ہوگی۔ بھارت کے پاس ضرورت کا محض 10 فیصد کاغذ دستیاب ہے جسے دیش میں تیار کیا گیا ہے۔ جہاں تک سیاہی کا سوال ہے ایک سوئس کمپنی ایس آئی سی پی اے دنیا کے تمام ملکوں (ہندوستان سمیت) کو نوٹوں کی چھپائی کے لئے سیاہی سپلائی کرتی ہے۔ سیاہی کیلئے آر بی آئی اسی کمپنی سے سیاہی خریدتی ہے۔ اس وقت چھپے 212 کروڑ نوٹوں میں 80فیصد بڑے نوٹ تھے۔ بھارت سرکار ہر سال نئے نوٹ چھاپنے کے لئے 22 ہزار میٹرک ٹن کرنسی کا استعمال کرتی ہے اس کی خرید میں نوٹوں کی چھپائی کی لاگت 40 فیصد خرچ ہوجاتی ہے، کچھ نوٹوں کا 80 فیصد حصہ 1000-500 کے نوٹوں کا تھا۔ بڑے نوٹوں نہ چلنے کو لیکر کانگریس نے وزیراعظم پر تلخ حملہ کیا ہے۔ اس نے کہا کہ تغلقی فیصلے کے 10 دن بعد پورا دیش خون کے آنسو رو رہا ہے اور دیش کو اقتصادی بحران یا اقتصادی بدامنی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجیوالا نے کہا کہ محض ایک شخص کی سنک اور اس کی ساکھ چمکانے کے لئے یہ سارا بونڈر رچا گیا ہے۔ اب تک55 لوگوں کی موت ہوگئی ہے۔ ان موتوں کی تفصیل جاری کی ہے۔ پرانی نقدی کا چلنا بندہونے سے جہاں ایک طرف لوگ کالی کمائی کو سفید کرنے کی کوشش میں لگے ہیں وہیں دیش میں ٹیکس چوری کا ٹرینڈ اور اچانک نوٹ بندی کے چلتے افراتفری میں بہت سے لوگوں کی محنت کی سفید کمائی کالی کمائی میں بدل گئی ہے۔ کرپشن پر کام کرنے والی تنظیم ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل انڈیا میں ہندوستانی شاخ کے چیف رماناتھ جھا نے بتایا کہ دراصل بھارت میں ابھی نقدی سے ہی لین دین کی ذہنیت ہے۔ ابھی یہاں کے لوگ پلاسٹک منی کے استعمال سے ناواقف ہیں۔ بینکنگ سسٹم سے جوڑنے اور بینک بیداری کے بغیر اچانک کئے گئے اس فیصلے سے بیکار نتیجے تو سامنے آئیں گے ہی۔ عام طور پر ہمارے یہاں ٹیکس چوری کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ چھوٹے دوکاندار سے لیکر بڑے تاجر اور عام شہری سبھی لوگ سرکاری ٹیکس چرانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ دیش کے دور دراز علاقوں میں دبنگ جبراً غریبوں کے کھاتے میں پیسہ جمع کرا کر اسے سفید بنانے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ راجدھانی میں بھی مل مالکوں نے اپنے مزدوروں کو بینکوں کی لائن میں لگا کر پرانے نوٹ بدلوانے کی رپورٹ آرہی ہے۔ کل ملاکر مرکزی سرکار کی اس فیصلے سے چوطرفہ کرکری ہورہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!