اخلاقی ذمہ داری لے کر ریزرو بینک گورنر کو استعفیٰ دے دینا چاہئے

جب 8 نومبر کی رات8 بجے وزیر اعظم نریندر مودی نے کرپشن اور کالے دھن کو ختم کرنے کے لئے 500 اور 1000 روپے کے بندی کا اعلان کیا تھا تو سارے دیش نے اس کا سواگت کیا تھا۔ کون نہیں چاہتا کہ کرپشن اور کالا دھن ختم ہو لیکن جیسے جیسے دن گزرے جنتا کی پریشانیاں بڑھتی چلی گئیں اور 15 دن کے بعد بھی لوگ گھٹوں لائنوں میں کھڑے نظرآرہے ہیں۔اپنی گاڑھی کمائی کو بینک سے نکالنے کے لئے بینکوں کے باہر آدھی رات سے ہی لائنیں لگ جاتی ہیں۔گھنٹوں بھوکے پیاسے لائن میں لگے رہے کے بعد بھی پتہ چلتا ہے کہ بینک میں پیسے ختم ہوگئے ہیں اور اگلے دن پھر لائن میں لگنا پڑے گا۔ نایاب سے نایاب اسکیم بھی عمل کی مفصل تیاری کے بغیر بے معنی ہوجاتی ہے۔ اس کی مثالیں ماضی میں کئی دیکھنے کو ملی ہیں۔ 500 اور 1000 روپے کے نوٹ بند کرنے کے فیصلے میں جس طرح بار بار سدھار کرنا پڑ رہا ہے اسے دیکھ کر شاید ہی لگتا ہے کہ ا س کے لئے سرکار یا ریزرو بینک آف انڈیا نے مفصل پلان تیار کیا تھا۔ بار بار سرکار کے اعلان یہی بتاتے ہیں۔سرکار کو دیر سے ہی صحیح درپردہ طور پر یہ ماننا پڑ رہا ہے کہ لوگوں کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسرے یہ اعلانات یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ اتنے بڑے فیصلے کو نافذ کرنے کی سرکار کی تیاری ایک دم لچر تھی جبکہ سرکار یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کی تیاری مہینوں سے چل رہی تھی۔ اگر ڈھنگ سے غور و خوض کیا گیا ہوتا تو سرکار کو پتہ ہونا چاہئے تھا کہ یہ بوائی،شادی بیاہ کا موسم ہے ایسے وقت لین دین اور کام کاج ٹھپ کردینے کا فیصلہ کتنا مناسب تھا؟ اس لئے ہی سرکار کو بار بار اپنے حکم کو بدلنا پڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم کی اسکیم پر عمل اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا کام بھارتیہ ریزرو بینک کا تھا۔ اگر اس میں کمی رہی ہے تو یہ ریزرو بینک کی ہے اور ریزرو بینک کو دیش کو جواب دینا پڑے گا۔ درجوں موت ہوگئی ہیں ،اس کا ذمہ دار آخر کون ہے؟ 22 نومبر کوتندیشوری (باندہ ۔ یوپی) علاقہ میں بچی کے علاج کے لئے والد پیسہ نہیں نکال سکا جس سے بچی نے بینک کمپلیکس میں ہی دم توڑدیا۔ دہلی میں ایک بزرگ بینک کے باہر لائن میں کھڑے کھڑے دم توڑ گئے۔ شادی والے گھروں کے لئے ریزرو بینک سے ڈھائی لاکھ روپے نکالنے کی خبر راحت کے بجائے آفت ثابت ہوئی ہے۔ منگل کو تمام بینکوں میں شادی کارڈ لیکر ڈھائی لاکھ کی نقدی لینے پہنچے سینکڑوں کنبوں کو ریزرو بینک کی تمام شرطوں کے درمیان پھنس کر خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ جن کنبوں میں دو ۔چار دن میں شادی ہے ان کنبوں کا مسئلہ اور بڑھ گیا ہے۔ لکشمی نگر کی باشندہ انیتا بتاتی ہیں کہ دو دن میں میری بیٹی کی بارات آنے والی ہے اور پھر گھر رشتے داروں سے بھرا پڑا ہے۔ ان کے پاس ہاتھ میں نقدی کے نام پر کچھ نہیں ہے۔ شادی والے گھروں میں کھلے پیسوں کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ اب بینک نے ایسی شرطیں رکھی ہیں انہیں ہم دو دن میں کیسے پورا کر پائیں گے؟ بینک جتنے کاغذ مانگ رہے ہیں وہ ایک دو دن میں اکھٹے کرنا ممکن نہیں۔ ہم شادی کی تیاری کریں یا کاغذات اکھٹے کرے کے لئے در در بھٹکیں؟ ابھی تو کارڈ بانٹنے کا کام بھی پورا نہیں ہوا۔ نوٹ بندی نے دیش کی اقتصادی ترقی کی رفتار کو بھی متاثر کیا ہے۔ انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسی فچ نے منگلوار کو اشارے دئے ہیں کہ آخری سہ مائی (اکتوبر۔دسمبر) میں بھارت کی جی ڈی پی اضافہ شرح کے اندازے میں کمی آجائے گی۔ فچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 500-1000 کے نوٹ بند کرنے کے فیصلے سے بھارت میں نقدی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ جس سے تمام اقتصادی سرگرمیاں دھیمی پڑ گئی ہیں۔ لوگ خریداری نہیں کر پارہے ہیں، کسانوں کو بیج خریدنے میں دقتیں ہورہی ہیں۔ بینکوں میں لمبی لائنوں سے دیش کی پیداوار بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو راجن کے مطابق شرح روز دیش کو 80 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ مطلب 50 دن میں 40 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان، اتنا تو کالا دھن بھی نہیں تھا؟ یہ کیسا معاشیاتی شاستر ہے؟ اس سب بربادی کا ذمہ داری ریزرو بینک ہے۔ آل انڈیا ریزرو بینک نے اس ادھوری تیاری کے لئے دیش کو بحران میں ڈالنے کیلئے ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل کا استعفیٰ مانگا ہے۔ یونین نے ان پر بغیر تیاری کے فیصلہ لینے اور اقتصادی تنگی کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے کا الزام لگایا ہے۔ یہ یونین دیش کے قومی اور نجی سیکٹر، کوآپریٹو اور زونل بینکوں کے 2.5 لاکھ سینئر بینک افسران کی نمائندگی کرتی ہے۔ یونین نے کہا کہ 11 بینک افسران سمیت تمام لوگوں کی ہوئی موت کی اخلاقی ذمہ داری آر بی آئی گورنر کو لینی چاہئے اور انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ حال ہی میں آر بی آئی گورنر صحیح فیصلہ لینے میں ناکام رہے جس کا خمیازہ عام جنتا کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔سینئر بینکر نے 500 روپے کی جگہ 2000 روپے کا نوٹ پہلے اتارنے پر بھی سوال اٹھایا ہے اور کہا کہ آر بی آئی گورنر نے 2000 کے نوٹ پر سائن کئے، ان کی ٹیم کو اس بات کا احساس کیوں نہیں ہوا کہ 2000 روپے کے نوٹ کا سائز 1000 روپے کے نوٹ سے چھوٹا ہے اس سے دو لاکھ بینک اے ٹی ایم مشینوں کو کیسے بدلہ جا سکے گا؟ فرینکو نے آر بی آئی کو کوستے ہوئے کہا کہ نوٹ بندی کے معاملے میں یہ پوری تیاری ناکام رہی ہے اور سرکار کو صحیح ڈھنگ سے صلاح نہیں دے پایا لہٰذا سرکار کی اور درگتی ہونے سے پہلے ریزرو بینک گورنر کو اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
(اینل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!