ہائی کورٹ نے جج نے سپریم کورٹ سے ہی جواب مانگ لیا ہے؟

ہندوستانی عدلیہ میں پیر کو کچھ ایسا ہوا ، جو اس سے پہلے دیش کی عدلیہ کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ دوپہر پیر کو سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے ایک جج کو کسی طرح کے عدلیہ کام دینے پر روک لگا دی تھی لیکن اس کے کچھ دیر بعد مدراس ہائی کورٹ کے اسی جج نے سپریم کورٹ چیف جسٹس سے ہی تحریری جواب مانگ لیا۔ سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سی ایس کارن کو کوئی بھی عدلیہ کام نہ دینے کی ہدایت دی تھی۔ دراصل کارن کاتبادلہ کلکتہ ہائی کورٹ کردیا گیا ہے۔ لیکن جج موصوف نے اس تبادلہ کے حکم پر بھی روک لگا دی۔ اس کے بعد جسٹس کارن کوئی عدلیہ کام دینے پر روک لگائی گئی تھی۔ مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس یہی تک نہیں رکے انہوں نے سپریم کورٹ کے ان دونوں ججوں کے خلاف بھی ایس سی ؍ ایس ٹی کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کی دھمکی دی جنہوں نے جسٹس کارن کو کوئی بھی عدلیہ کام نہ دینے کی ہدایت دی تھی۔ اپنی عدلیہ اختیارات کاعلاوہ دیتے ہوئے جسٹس کارن نے کہا کہ وہ خود نوٹس لیتے ہوئے چنئی پولیس کمشنر کو سپریم کورٹ کے دونوں ججوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے جوڈیشل حکم دیں گے انہوں نے ایک بار پھر خود کو ذات پات امتیاز جانچ کاشکار بتایا ادھر سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا جسٹس کارن کسی معاملے میں خود نوٹس لے کر حکم نہیں دے سکتے ا ن کو جوڈیشل یا انتظامی کام کاج دینا یا نہ دینا مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر منحصر کرے گا۔ وہ چاہے تو انہیں آگے کام کاج دیں یا نہ دیں ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب جسٹس کارن تنازعوں میں آئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی اپنی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نچلی عدالت میں تقرری کو لے کر جاری حکم پر خود نوٹس لے کر سماعت شروع کردی تھی۔ گزشتہ برس مئی میں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں روک لگائی تھی۔ جسٹس کارن نے اپنے تبادلہ روکنے حکم میں چیف جسٹس کو نوٹس دیتے ہوئے باقاعدہ اس کا جواب مانگا ہے یہی نہیں انہوں نے اس حکم کی کاپی رام ولاس پاسوان، بسپا چیف مایا وتی اور کانگریس صدر سونیا گاندھی کو بھی بھیجی ہے۔ معاملہ کیونکہ عدالتوں سے متعلق ہے اس لئے اس پر کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی ہیں ہاں ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں ا یسا قصہ پہلے نہیں رونما نہیں ہوا ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!