راہل گاندھی کی دیش دشمن طلبا کو حمایت

جواہر لال نہرو یونیورسٹی تنازع بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اب لڑائی کیمپس سے نکل کر عدالت پہنچ گئی ہے۔ پیر کے روز ملکی بغاوت کے الزام میں گرفتار اسٹوڈینٹ یونین لیڈر کنہیا کمار کی پیشی پٹیالہ ہاؤس عدالت میں تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے کئی طالبعلم لیڈر، ٹیچرس و جے این یو حمایتی لوگ لنچ بریک میں ہی متعلقہ مجسٹریٹ کے کمرے میں جاکر بیٹھ گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے وہاں موجود جے این یو طلبا کو شناختی کارڈ چیک کرکے باہر نکالنے لگے۔ اس کے بعد ہاتھاپائی نعرے بازی شروع ہوگئی۔ اس ہاتھاپائی میں کچھ میڈیا ملازم بھی پھنس گئے اور ان کے چوٹیں بھی لگیں۔ دہلی پولیس کمشنر بی ۔ ایس بسی نے واردات کو ہاتھا پائی بتاتے ہوئے کہا کہ کسی کو شدید چوٹ نہیں آئی ہے۔ زور زبردستی دونوں طرف سے کی گئی تھی۔ پولیس نے اس معاملے میں نامعلوم لوگوں کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی ہیں۔ میڈیا میں ایک فوٹو چھپی ہے جس میں بی جے پی ممبراسمبلی او۔ پی شرما کو ایک سی پی آئی ورکر کی پٹائی کرتے دکھایا گیا ہے۔ او۔پی۔ شرما نے دعوی کیا ہے کہ ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے کچھ لوگوں نے ان پر حملہ کیا تھا۔ کنہیا کی گرفتاری کو صحیح قرار دیتے ہوئے پولیس کمشنر بسی نے کہا کہ کنہیا ملک دشمنی نعرے لگا رہا تھا۔ اس درمیان عدالت نے کنہیا کی پولیس ریمانڈ بدھوار تک بڑھا دی۔ بسی سے جب بھارت مخالف نعرے لگانے والے مبینہ اے بی وی پی سے تعلقات رکھنے والے طلبا کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا، جہاں تک میری جانکاری ہے اے بی وی پی طلبا ملک مخالف نعروں کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔ ہمیں پورے معاملے میں سب سے زیادہ دکھ اور حیرانی اس بات پر ہوئی کہ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی جی این یو کیمپس پہنچ گئے اور ملک دشمنی کے ملزم طلبا کی حمایت کرنے لگے۔ کیا وہ یہ بھول گئے تھے کہ انہی کی سرکار میں افضل گورو کو پھانسی دی تھی؟ راہل کے برتاؤ سے بیوجہ بیان بازی سے کچھ کانگریسی بھی پریشان ہوگئے ہیں۔
راہل نے اچانک جی این یو پہنچ کر دیش دروہیوں کی حمایت کیسے کردی، کانگریسیوں کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کانگریس کو زمینی سطح پر کھڑا کرنے میں لگے عام کانگریسی ورکر اب پریشان ہیں۔ لیکن معاملہ کیونکہ اعلی کمان سے وابستہ ہے اس لئے کوئی کھل کر بولنے کی ہمت نہیں دکھا رہا ہے۔ دہلی کے ایک سینئر کانگریسی لیڈر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ دیش اور خاص طور پر دہلی و دیش کے عام لوگوں کو راہل گاندھی کی بیان بازی کے پیچھے کی حکمت عملی سمجھ میں نہیں آئے گی لیکن وہ راہل گاندھی کو دیش دروہیوں کی حمایت ضرور سمجھ بیٹھیں گے۔ راہل گاندھی کے ذریعے ان کی حمایت میں دئے گئے اس بیان سے سوشل میڈیا میں بھی ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ راہل گاندھی آخر اس بیان بازی سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کس نے انہیں وہاں جا کر بھاشن بازی و ملک دشمنوں کی حمایت کرنے کو کہا؟ خیال رہے کہ سنیچرکی شام راہل گاندھی اچانک جواہر لال نہرو یونیورسٹی پہنچ گئے، وہاں انہوں نے کہا کہ ادارے کی آواز دبانے والے لوگ ملک دشمن ہیں اور طلبا کی گرفتاری کو لیکر مودی سرکار پر تلخ نکتہ چینی کرتے ہوئے راہل گاندھی نے درپردہ طور سے ہٹلر کے عہد کا موازنہ کردیا اور این ڈی اے پر طلبا کی آواز دبانے کا الزام لگایا اور طلبا کو ان کی دھونس نہ چلنے دینے کیلئے کہا۔ 
معلوم ہو کہ ملکی بغاوت کے الزام میں جی این یو کیمپس میں افضل گورو کی حمایت میں اسٹوڈینٹ یونین صدر کنہیا کمار کو جمعہ کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس پر ملک سے بغاوت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ 5 دیگر ملزمان اننت پرکاش، رما ناگر، اشوتوش، عمر خالد اور انیبردھن فرار ہیں۔ عمر خالد کے بارے میں بتا دیں کہ انہوں نے ’ٹائمس ناؤ‘ کے ارنب گوسوامی اور زی نیوز کے روہت سردانا کے پروگرام میں نہ صرف نعرے بازی کو جائز قراردیا بلکہ باقاعدہ ایسا کرنے کے لئے دلائل بھی پیش کئے۔ نعرے بازی کا یہ سلسلہ پریس کلب میں بھی ہوا۔ پریس کلب نے دعوی کیا ہے کہ ایس ۔ آر ۔گیلانی کے پروگرام میں نعرے بازی ہوئی، کیلئے کلب کے ہال کو بک کرانے والے کلب کے ممبر و دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر جاوید علی کی ممبر شپ ختم کردی گئی ہے۔ کلب میں بھی معاملے کی جانچ کیلئے تین نفری کمیٹی بنائی گئی ہے۔ پریس کلب آف انڈیا کے سکریٹری جنرل ندیم اے کاظمی کا کہنا ہے کلب کی ساکھ خراب نہیں ہونے دیں گے۔ کلب کو ملک دشمن سرگرمیوں کا اسٹیج نہیں بننے دیا جائے گا۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ کنہیا نے میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ لولین کے سامنے کہا کہ میں نے نہ تو نعرے بازی کی اور نہ ہی پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اے بی وی پی کے منتظمین سے جھگڑہ ہونے پر بیچ بچاؤ ہوگیا تھا۔ اس پر پولیس نے ویڈیو دکھایا۔ تب مجسٹریٹ نے کہا لگتا ہے کہ ان طلبا کو بھارت میں رہنے کا دکھ ہے۔ پھر کنہیا سے پوچھا کس طرح کی آزادی چاہئے آپ کو؟ دیش کے پہلے وزیر اعظم کے نام پر راجدھانی میں بنی جواہر لال نہرو یونیورسٹی بدقسمتی سے آج ملک دشمن عناصر کا گڑھ بن گئی ہے۔ اتنے نامور ادارے کو مٹھی بھر لیفٹ پارٹیوں نے آج بربادی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ اظہار آزادی سب کو ہے لیکن کشمیر کو آزاد کرانے سے ہندوستان کو برباد کرنے تک کے نعرے کیسے برداش کئے جاسکتے ہیں؟ ایسے عناصر پر سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ جے این یو کو بچانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی ووٹ بینک کے چکر میں مودی سرکار کی ہر حالت میں تنقید کرنے پر آمادہ ہیں۔ آج دیش دروہیوں کی حمایت کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!