ضمنی چناؤ کے سندیش اور سبق بھی سمجھنا ضروری ہے

عام طور پر لوک سبھا یا اسمبلی کے ضمنی چناؤ نتیجوں سے دیش کی سیاست پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا مگر ان کے ذریعے رائے دہندگان کے موڈ کو سمجھنے کا ضرور اشارہ ملتا ہے۔ یہی بات 13 فروری کو 8 ریاستوں میں اسمبلی کے ضمنی چناؤ کو لیکر کہی جاسکتی ہے جن کے نتیجے مختلف پارٹیوں کے لئے ملے جلے رہے ہیں۔ اگر ان نتیجوں کو ریاستی سطح پر دیکھیں تو ان میں کچھ ایسے سندیش ضرور چھپے ہوئے ہیں جن میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ہوا کس طرف بہہ رہی ہے۔ بہار میں عوام میں قریب2 مہینے پہلے زبردست کامیابی والے جے ڈی یو ۔ آر جے ڈی اتحاد کو مسترد کردیا ہے تو اترپردیش میں حکمراں سماجوادی پارٹی کی حالت خراب کردی ہے۔بھاجپا کے لئے تشفی کی بات یہ رہی ہے کہ مدھیہ پردیش کے میہر اسمبلی حلقے میں پارٹی نے جیت کا پرچم لہرایا ہے۔ اس کامیابی سے وزیر اعلی شیو راج چوہان کا بلڈ پریشر ضرور بہتر ہوگا۔ اگر ہم بہار کی بات کریں تو جے ڈی یو۔ آر جے ڈی اتحاد اور راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی کے امیدوار کی جیت کو بھلے ہی ہمدردی ووٹ سے کامیابی کہیں لیکن کچھ مہینے کی حکومت کی بنیاد کو مان لیں تو یہ جیت اس سے آگے کی کہانی بیان کرتی ہے۔اس وقت نتیش کمار اور لالو پرساد دونوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے شاید ایسا کچھ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کیلئے بھی ہے۔ نازک وقت میں عام سندیش بھی خدشہ پیدا کردیتے ہیں۔ سب کو سیکھنے کا اشارہ دیتا ہے۔ ایسی ہی کچھ حالت اترپردیش اسمبلی ضمنی چناؤ میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ تین سیٹوں پر دوبارہ چناؤ ہوئے تینوں ہی سیٹوں پر پہلے سپا کا قبضہ تھا یوں تو ضمنی چناؤ میں ہار کے بہت معنی نہیں ہوتے۔ اس سے یہ بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ اگر اسمبلی چناؤ میں اونٹ کس کرونٹ بیٹھے گا پھر بھی تازہ نتیجوں سے کئی اشارے مل رہے ہیں۔ مظفر نگر میں بھاجپا امیدوار کامیاب ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اکثریتی ووٹ سپا کے خلاف ہے۔ دیوبند سے کانگریس کے امیدوار کی جیت یہ اشارہ دیتی ہے کہ مسلم ووٹروں نے پوری طرح سپا کی حمایت نہیں کی ہے۔ مگر کیا ہوتا مغربی ہندوستانی کی دونوں سیٹیں ان کے پاس ہوتیں۔ بسپا کی غیر موجودگی کا فائدہ سپا اٹھانے میں ناکام رہی۔ خاص بات یہ ہے کہ ضمنی چناؤ جیتنے کے لئے سپا نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ دوسری طرف پنجاب میں جہاں کچھ مہینے بعد اسمبلی چناؤ ہونے ہیں کھنڈور صاحب اسمبلی سیٹ سے حکمراں اکالی دل کے امیدوار نے ریکارڈ جیت درج کی ہے۔ مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی دونوں ہی اس چناؤ میں میدان میں نہیں تھے۔ جنوبی ریاست کرناٹک میں ایک بار پھر کمل کھلانے کا موقعہ ہاتھ لگا ہے۔ شیو سینا نے مہاراشٹر میں پالدھر سیٹ پر جیت حاصل کر اپنا دبدبہ برقرار رکھا ہے۔ کل ملا کر این ڈی اے ان نتائج سے خوش ہوگا۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ضمنی چناؤ نے سندیش بھی دیا اور سبق بھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!