کشمیری علیحدگی پسند و نکسلیوں کاگٹھ جوڑجے این یو پر حاوی

جے این یو میں صرف ملک مخالف نعرے ہی نہیں لگے یہ جو جے این یو میں کیا چل رہا ہے اس سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھنا شروع ہوگیا ہے۔ کئی برسوں سے یونیورسٹی میں طالب علم ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ یہ اب صاف ہوتا جارہا ہے پچھلے سات آٹھ دنوں کی جانچ سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ تنازعہ کشمیری علیحدگی پسندوں اور نکسلیوں کی گٹھ جوڑ کانتیجہ ہے ہندوستانی اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے خواب دیکھنے والے علیحدگی پسندوں چاہے وہ کشمیرکے ہوں یا پھر نارتھ ایسٹ کے ہوں انہوں نے نکسلیوں کے ساتھ ہاتھ ملا لئے ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کے مطابق کافی عرصے سے جے این یو کیمپس میں سرگرم ہے اور اس کے لئے انہوں نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس یونین( ڈی ایس یو) کے نام سے اپنی طلبہ انجمن بھی بنا رکھی ہے۔ فی الحال اس تنظیم سے اب تک صرف دس طالب علم ہی جڑے ہیں پچھلے سال گڑھ چیرولی میں گرفتار ہیم مشرا اسی ڈی ایس یو سے جڑا ہوا تھا۔ کچھ وقت پہلے چھتیس گڑھ میں جب ستر سے اوپر سی آر پی ا یف کے جوان نکسلیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے تو اس انجمن نے جے این یو میں جشن منایا تھا۔ ڈی ایس یو کے علاوہ نکسلیوں نے کشمیری اور نارتھ ایسٹ کے علیحدگی پسند گروپوں کے ساتھ مل کر کمیٹی فور ریلیز آف پالیٹکل پریزنرس نام سے ایک انجمن بنائی تھی اس کا کام سرکار کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کرنا اور جیلوں میں بند نکسلی و علیحدگی پسند کی لیڈروں کی رہائی کے لئے ماحول بنانا ہے۔ اس بات کی تصدیق خود گرفتار یونین کے لیڈر کنہیا نے کی ہے۔ کنہیا نے بتایا کہ متنازعہ پروگرام کو سید عمر خالد نے پلان کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ عمر کشمیر میں سرگرم تنظیموں کا ساتھی ہے اس کے پاس کشمیر کے مشتبہ نوجوان آتے رہتے ہیں۔ 9 فروری کو افضل گروہ کی پھانسی کی تیسری برسی پر جے این یو میں منانے کا پلان عمر نے ہی ان لوگوں کے ساتھ مل کر تیار کیاتھا۔ کنہیا نے بتایا پروگرام کے دوران بھارت کے ٹکڑے کے کرنے اور افضل گروہ شہادت کے نعرے عمر اور کشمیر سے آئے اس کے ساتھیوں نے لگائے تھے۔ 
کچھ سال پہلے تک کوئی نکسلی لیڈر ہی اس کمیٹی کا صدر ہوا کرتا تھا، لیکن بعد میں ایس آر گیلانی کو اس کا چیف بنا دیا گیا ایس آر گیلانی کی رہنمائی میں دہلی کے پریس کلب میں منعقدہ دیش مخالف پروگرام میں نعرے لگائے گئے۔ اس دیش مخالف پروگرام میں الگ الگ یونیورسٹیوں اور انجمنوں کے طلبہ کا کردار سامنے آیا ہے پریس کلب کی وابستگی کے بھی جے این یو سے مل رہی ہے۔ پولیس نے کورٹ میں خلاصہ کیا ہے کہ دیش مخالف طاقتیں بھارت کی اہم یونیورسٹیوں کے کچھ طلباء گروپ کے ذریعے بڑی سازشیں رچی جارہی ہیں۔ اس لئے ایسے معاملوں کی چھان بین کی ضرورت ہے۔ 9 فروری کے متنازعہ احتجاجی مظاہرہ جے این یو کمپلیکس میں واقع سابرمتی ڈھابہ کے پاس ہوا تھا۔ وہاں سے برآمد پوسٹر میں کشمیر کے سلسلے میں لکھا ہے۔۔۔ ایک دیش جہاں ڈاکٹر ہی نہیں ہے اقتدار کے خلاف لوگوں کی جدوجہد میں یادداشت کا سنگھرش ہے کہ وہ اس معاملے کو نہ بھول جائے۔ اسی پوسٹر کے پیچھے چھپا ہے برہمن واد کی اجتماعی ولولے کے خلاف افضل گروہ اور مقبول بھٹ کی جوڈیشل قتل کے خلاف و کشمیر کے لوگوں کے ذریعے کی جارہی جدوجہد اور اپنے لئے فیصلے کرنے کے لئے ان کے جمہوری حقوق کی حمایت میں شامل ہونے کے لئے مدعو کرتے ہیں۔ دہلی پولیس کے ذریعے کی گئی ایف آئی آر میں عمر خالد کی قیادت میں لگے نعروں کا بھی ذکر کیاگیا ہے۔ ڈی ایس یو کو سرکاری طور پر سی پی آئی ( ماؤ وادی) کا بھی سنگھٹن ماناجاتا ہے۔ 2014 کو اس وقت کے وزیرمملکت داخلہ آر پی این سنگھ نے راجیہ سبھا نے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ ڈی ایس یو سی پی آئی( ماؤ وادی) سے وابستہ تنظیم ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کے مطابق جے این یو اور پریس کلب میں افضل گروہ کی شہادت کی شکل میں منانے کافیصلہ انہی لوگوں کا تھا اور بھارت مخالف نعرے بھی انہوں نے لگائے تھے۔9 فروری اس پروگرام میں ایک کشمیری فلم دکھانے کابھی پروگرام تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ ظاہر ہے کہ ملک کی بغاوت کے پیچھے کشمیری علیحدگی پسند عناصر اور کچھ سرگرم نکسلیوں کا گٹھ جوڑ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!