ہیڈلی نے تصدیق کی،عشرت لشکر کی فدائین دہشت گرد تھی

ممبئی پر26/11 حملے کے سلسلے میں گواہی دے رہے پاکستانی نسل کے امریکی دہشت گرد ڈیوڈ کول مین ہیڈلی نے جمعرات کو سنسنی خیز خلاصہ کیا کہ 2004ء میں مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں ماری گئی کالج اسٹوڈنٹ عشرت جہاں آتنک وادی تنظیم لشکر طیبہ کی فدائین ممبر تھی اور وہ بھارت میں تباہی مچانے کے مقصد سے بھرتی کی گئی تھی۔سال 2013 ء میں بھی ہیڈلی نے این آئی اے افسران کو دئے بیان میں یہ دعوی کیا تھا، لیکن تب کی کانگریس کی یوپی اے سرکار نے سیاسی وجوہات سے بیان کے اس حصے کو ہٹا دیا تھا۔ عشرت پر نام نہاد سیکولر نیتاؤں نے خاصی سیاست کی تھی، لیکن ممبئی کی عدالت کے سامنے ہیڈلی کے تازہ بیان سے اس کے دہشت گرد ہونے پر لگا سوالیہ نشان ختم ہوگیا۔ یہ ایک ایسا کیس تھا جس پرنام نہاد سیکولر نیتاؤں نے اپنی سیاست چمکانے کی خاطر ساری حدیں پار کردی تھیں۔ انہوں نے نہ تو سیاستدانوں کو چھوڑا نہ ہی اعلی پولیس افسران کو چھوڑا اور نہ ہی خفیہ و جانچ ایجنسیوں کے افسروں کو۔ یہ انکاؤنٹر جب ہوا تھا تب امت شاہ گجرات کے وزیر داخلہ تھے۔ سیاسی حملوں کے چلتے انہیں نہ صرف وزارت کے عہدے کو چھوڑنا پڑا تھا بلکہ مہینوں جیل میں گزارنے پڑے تھے۔ جیل سے چھوٹنے پر ضمانت کی شرطوں کے مطابق گجرات سے باہر رہنا پڑا تھا۔ مئی2014ء میں سی بی آئی نے امت شاہ کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف کافی ثبوت نہیں ہیں۔ ان پر کیس نہیں چلایا جاسکتا۔ عشرت جہاں معاملے میں ملزم سابق آئی پی ایس ڈی جی ونجارا نے کہا کہ ہیڈلی کی گواہی سے گجرات کی پولیس کا رخ صحیح ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے جمعرات کو کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عشرت ایک دہشت گرد تھی اور جس مڈ بھیڑ میں وہ ماری گئی وہ صحیح تھا۔ونجارا احمد آباد کی اس کرائم برانچ کے ڈی سی پی تھے جس نے عشرت جہاں اور دیگر کو مبینہ مڈ بھیڑ میں مار گرایاتھا۔ ونجارا فی الحال ضمانت پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مڈبھیڑ پر سیاست گرم کرکے اسے غلط سمت میں لے جایا گیا جبکہ مڈ بھیڑ حقیقی تھی اور پولیس کے افسروں پر کیس فرضی تھے۔ ادھر انٹیلی جنس بیورو کے سابق اسپیشل ڈائریکٹر راجندر کمار نے جمعرات کو دعوی کیا کہ کسی نے عشرت معاملے میں ان کا نام گھسیٹ کران کا استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔یہ پوچھے جانے پر کیا سی بی آئی نے مبینہ فرضی مڈ بھیڑ معاملے میں انہیں ملزم بناکر جان بوجھ کر پریشان کرنے کیلئے مہم چلائی، تو کمار نے کہا کہ میں سی بی آئی کے ذریعے جان بوجھ کر پریشان کرنے کی مہم کا شکار نہیں ہوں۔ کسی نے دیش میں جمہوریت کو ختم کرنے کے لئے میرا استعمال ایک پیادے کے طور پر کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگئے۔ میں ان کا پیادا نہیں بنا۔ غور طلب ہے کہ سی بی آئی نے راجندر کمار اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے تین دیگر افسران کے خلاف چارج شیٹ دائر کی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ وزارت قانون کے انکار کے باوجود 1979 بیچ کے آئی پی ایس راجندر کمار کے علاوہ آئی بی کے تین افسروں کے خلاف سی بی آئی نے دفعہ302 (قتل)، مجرمانہ سازش 120(B) ، قتل کے لئے اغوا 346 ،364،368 (غلط ارادے سے قیدی بنایا ) اور آرمس ایکٹ کی دفعہ29 لگائی گئی تھی۔
ہیڈلی کی گواہی سے اس وقت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم و سی بی آئی ڈائریکٹر رنجیت سنہا پر سنگین سوال ضرور کھڑے ہوں گے۔گرہ منترالیہ نے عشرت کو آتنکی بتانے والے حلف نامے کو واپس لے لیا تھا، وہیں سنہا نے عشرت کے گروپ کے منصوبوں کے بارے میں ہوشیار کرنے والی خفیہ بیورو (آئی بی) کے افسران کو ملزمین بنانے کی کوشش کی تھی۔ ممبئی کورٹ میں سرکاری وکیل اجول نکم نے ہیڈلی سے پوچھا کیا لشکر میں خاتون ونگ ہے؟ ہیڈلی :ہاں۔ نکم: اس کا مکھیہ کون ہے؟ ہیڈلی: ابوہنجر کی ماں ابورومین۔ نکم: کیا لشکر میں خاتون فدائین ہیں؟ ہیڈلی: میں نہیں جانتا۔ نکم: کیا تم ان فدائین کا نام بتا سکتے ہو؟ ہیڈلی: میں نہیں بتا سکتا۔ نکم: کیا انڈیا میں کوئی آپریشن کرنا تھا؟ ہیڈلی: ہاں، میں نے (لشکر کمانڈر) لکھوی کو مزمل بٹ سے کہتے سنا تھا کہ ایک خاتون فدائین کی وجہ سے آپریشن ناکام ہوگیا۔ میرا ماننا تھا کہ وہ بھارتیہ تھی، پاکستانی نہیں۔ لیکن لشکر کی ممبر تھی۔ نکم:اس لشکر میں کتنی خواتین تھیں؟ ہیڈلی: مجھے یاد نہیں ہے۔ لیکن خاتون تھیں جو ناکے پر پولیس مڈ بھیڑ میں ماری گئی تھی، انکاؤنٹر کس ریاست میں ہوا مجھے پتہ نہیں۔ نکم: میں آپ کو تین نام بتاتا ہوں، ان میں سے وہ کون تھیں؟ نور بیگم، عشرد جہاں اور عشرت جہاں ۔ ہیڈلی: عشرت جہاں۔ قابل ذکر ہے کہ 15 جون 2004ء کو گجرات پولیس سے ہوئی مڈ بھیڑ میں ممبئی کی رہنے والے19 سالہ عشرت جہاں، جاوید شیخ ، امجد علی ، اکبر علی رانا اور ذیشان مارے گئے تھے۔یہ آتنکی گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی کا قتل کرنے کی سازش کررہے تھے۔ہیڈلی کے مطابق آئی ایس آئی اور میجر اقبال اسے مستقل طور پر پیسہ بھیجتا تھا۔ ستمبر2006 میں اس نے 25 ہزار ڈالر اور 2008 میں نقلی بھارتیہ نوٹ بھی دئے تھے۔ ہیڈلی کے انکشافات کے بعد بھی کانگریس اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہی ہے۔پارٹی نیتا منیش تیواری نے کہا کہ اگر ہیڈلی کے بیان کو مان بھی لیا جائے کہ عشرت آتنکی تھی تو بھی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ فرضی مڈ بھیڑ میں اسے مارا جائے۔ قانون کہتا ہے کہ اسے گرفتار کر کارروائی ہو، جس طرح اجمل قصاب کے معاملے میں ہوا۔منیش نے کہا کہ اہم سوال یہی ہے کہ وہ مڈ بھیڑ فرضی تھی اور کورٹ نے بھی یہی مانا ہے۔ دوسری جانب ہیڈلی کی گواہی کے بعد بھاجپا زیادہ حملہ آور ہوگئی ہے۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے ہیڈلی کے خلاصے کے بعد بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار پر نشانہ سادھتے ہوئے کہاووٹ کی راج نیتی کے لئے نتیش بابو نے دیش کے تحفظ سے کھلواڑ کیا۔ عشرت کو بہار کی بیٹی بتانے والے نتیش معافی مانگیں۔ بھاجپا نیشنل سکریٹری شری کانت شرما نے کہا کہ سونیا گاندھی، راہل گاندھی، پی چدمبرم جیسے کئی نیتاؤں نے عشرت کی موت پر بھی سیاست کی تھی۔ کانگریسی نیتاؤں کی تو یہی روایت ہے کہ وہ دیش بھکت جوان کی شہادت کو بھلا کر آتنکیوں کی موت پر آنسو بہاتے ہیں۔ ایسا ہی بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے وقت بھی ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے بھی ہیڈلی نے جب عشرت کو لشکر کی فدائین بتایا تھا تو کانگریس نے اس حقیقت کو چھپا دیا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!