ٹکٹوں کو لیکربھاجپا میں مچا گھمسان!

یوں تو بھارتیہ جنتا پارٹی میں باہر سے لیڈروں کے آنے کی بھیڑ سی لگی ہوئی ہے۔ کیرن بیدی کے بعد کانگریس کی تیز طرار خاتون لیڈر کرشنا تیرتھ آئیں، شازیہ علمی آئیں نہ جانے کون کون آیا۔ بھاجپا میں شامل ہونے کی ایک دوڑ سی لگ گئی ہے جہاں بھاجپا ہائی کمان کو لگتا ہے کہ ان باہری لیڈروں کے آنے سے پارٹی مضبوط ہوئی ہے اور7 فروری کے دن جب ووٹ پڑیں گے تو اسے واضح اکثریت ملے گی لیکن ان باہری لیڈروں کے آنے کی پارٹی کے اندر مخالفت ہورہی ہے۔ باہری لیڈروں کے آنے سے وہ ٹکٹ تقسیم میں جانبدرانہ رویئے کو لیکر بھاجپا میں آتے ہی کچھ نہ کچھ زیادہ دکھائی دینے لگا ہے لیکن اندر جم کر گھمسان مچا ہوا ہے۔ ٹکٹ نہ ملنے سے کئی لیڈروں کے حمایتیوں کا غصہ سڑکوں پر آگیا ہے۔ پردیش بھاجپا صدر ستیش اپادھیائے سمیت کئی اور لیڈروں کے حمایتی منگلوار کو ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض دکھائی دئے۔ انہوں نے پردیش بھاجپا دفتر میں جاکر جم کر ہنگامہ برپا کیا۔ ان ورکروں کا کہنا ہے بھاجپا کتنی اصولی پارٹی ہے اس کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ اس کو قائم ہوئے 34 برس گزر گئے ہیں۔ پارٹی کی مرکز میں حکومت ہے لیکن وزیر اعلی کا چہرہ پیراشوٹ سے لانا پڑا اور چار گھنٹے میں ہی پارٹی میں آنے والوں کو ٹکٹ مل گیا اور30 سال سے سیوا کرنے والوں کو ٹکٹ سے محروم رکھا گیا ہے۔ ستیش اپادھیائے کے حمایتیوں نے پردیش دفتر پہنچ کر کیرن بیدی تک کے خلاف نعرے بازی کی۔ انہوں نے نعرہ لگایا کے پیراشوٹ سی ایم امیدوارنہیں چلے گااور اپادھیائے کو مہرولی سے اسمبلی سے پرچہ داخل کرنے کی مانگ کی گئی۔ وہیں اپ پردھان شکھا رائے کے حمایتیوں نے بھی مظاہرہ کیا۔ روہنی سے ٹکٹ کٹنے سے ناراض سابق ممبر اسمبلی جے بھگوان اگروال کے حمایتی بھی سڑک پر اتر آئے۔ کیرن بیدی کو لیکر کئی سینئر لیڈر ناراض ہیں ۔ کچھ نے تو اپنی ناراضگی عام کردی ہے جس میں ایم پی منوج تیواری سب سے آگے ہیں لیکن پھٹکار کے بعد انہوں نے اپنا بیان واپس لے لیا۔ پروفیسر جگدیپ مکھی، ڈاکٹرہرش وردھن ، وجے گوئل ناراض ہیں۔ مکھی نے ہائی کمان پر بھی تنقید کی اور کہا کیرن کے بارے میں فیصلہ لیتے وقت پردیش یونٹ کو بھروسے میں نہیں لیا گیا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا جب پردیش پردھان کو ہی ٹکٹ نہیں ملا اور چھوٹے نیتاؤں کا تو کیا حال ہوگا؟ بتاتے ہیں کہ پارٹی کے صدر امت شاہ نے سخت الفاظ میں یہ پیغام دیا ہے کہ بغاوت کے تیور اپنانے والے لیڈروں کو بخشا نہیں جائے گا۔ اس کے بعد ہی بیدی کے خلاف ناراضگی اور باغیانہ تیور بھی ڈھیلے پڑ گئے۔ باغیانہ تیور اپنانے والے لیڈر بتاتے ہیں کیرن بیدی پر بھی نجی حملے ہوں گے انہوں نے دہلی پولیس کے افسر رہتے وکیلوں پر لاٹھی چارج کرایا تھا۔ بہت پہلے رام لیلا کے منتظمین پر بھی بیدی کے ذریعے لاٹھی چارج کو وہ لوگ آج تک نہیں بھولے ہیں۔ اپوزیشن اس کو مسالہ بنانے سے نہیں چوکے گا۔ بھاجپا میں جس طرح سے دہلی اسمبلی چناؤ کے پیش نظر نئے چہروں کو آگے لانا شروع کیا ہے اس پر کھلے طور پر پارٹی کے اندر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ پہلے بھاجپا کہتی تھی کہ وزیر اعلی کے عہدے کے امیدوار کو آگے کر کے چناؤ لڑنا اس کی پالیسی کے خلاف ہے۔ ہریانہ ،مہاراشٹر چناؤ اسی اصول پر لڑے گئے تھے لیکن دہلی میں اروند کیجریوال سے خوفزدہ بھاجپا کو اپنا اصول بدلنا پڑا۔ بھاجپا کے تنقید کرنے والے اب یہ کہنے سے نہیں ہچکتے کہ کیرن بیدی کو امیدوار بنا کر چت بھی میری اور پٹ بھی میری کا داؤ مودی شاہ نے چل دیا ہے۔ اگر دہلی میں بھاجپا ہاری تو کیرن بیدی ہاری اور جیتی اور نریندر مودی جیتے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ پارٹی میں بڑھتی اس ناراضگی کو امت شاہ کتنا کنٹرول کرسکتے ہیں۔ ورکروں کا نکلنا چناؤ مہم چلانا پارٹی میں اتحاد بہت ضروری ہے۔ پارٹی ورکروں کو بندھوا مزدور سمجھنا بھاری بھول ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!