اتراکھنڈمیں جہاں کانگریس کو ملی تقویت وہیں بھاجپا کے گرتے گراف کااشارہ!

اتراکھنڈ میں ودھان سبھا کیلئے ہوئے ودھان سبھا اپ چناؤ میں کانگریس نے تینوں سیٹیں جیت کر بھاجپا کا سوپڑا صاف کردیا۔ اس سے جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھاری جھٹکا لگا ہے وہیں لوک سبھا چناؤمیں کراری ہار سے کوما میں پہنچ گئی کانگریس کو سنجیونی مل گئی ہے۔ابھی دو مہینے پہلے ہی لوک سبھا چناؤ میں ملی ہار سے گھبرائی کانگریس کیلئے یہ جیت جان ڈالنے کا کام کرے گی۔ساتھ ہی کانگریس کی یہ جیت بھاجپا کیلئے بڑا جھٹکا اس لئے بھی ہے کیونکہ اس میں پردھان منتری نریندر مودی کا جادو لوگوں سے اترنے کے صاف صاف اشارے ملنے لگے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ریاست کے مکھیہ منتری ہریش راوت دہلی میں ہسپتال میں پڑے تھے اور چناؤ پرچار کرنے نہ وہ خود گئے اور نہ ہی پارٹی کا کوئی بڑا نیتا ہی اترا کھنڈ گیا۔ اس لئے یہ جیت ہریش راوت کی شہرت کا ثبوت تو ہے ہی کانگریس کی واپسی کا اشارہ بھی ہے۔لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی کی لہر کی وجہ سے اتراکھنڈ کی پانچوں سیٹیں بھاجپا نے جیتی تھیں لیکن دو مہینے کے اندر ہی تین ودھان سبھا سیٹوں پر ہوئے اپ چناؤ میں کانگریس کی جیت نے مودی لہر کی ہوا نکال دی ہے۔ ساتھ ہی پردیش میں راج نیتک سمی کرن بھی بدل دئے ہیں۔
70 ممبر وں والی ودھان سبھا میں اب کانگریس کے پاس35 سیٹیں ہوگئی ہیں۔ ایک ممبر پہلے سے ہی کانگریس کو سمرتھن دے رہا ہے۔7 ودھائک سہیوگی دلوں کے ہیں اس لئے اب ہریش راوت کی کرسی کو خطرہ ٹل گیا ہے جبکہ بھاجپا کے سپنے چکنا چور ہوگئے ہیں۔لوک سبھا چناؤ کے بعد ملی بھاری جیت سے یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ اپ چناؤ میں بھی بھاجپا کو کم سے کم 2 سیٹیں مل جائیں گی اور پردیش میں سرکار بنانے کے آثار بڑھ جائیں گے۔ لوک سبھا چناؤ کے پہلے بھاجپا نے کانگریس کے قد آور نیتا ستپال مہاراج کو پارٹی میں اس بھروسے پر لیا تھا کہ انہیں وزیر اعلی بنایا جاسکتا ہے۔
اتراکھنڈ میں ملی اس جیت کا اثر دیگر ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی چناؤ پر بھی پڑ سکتا ہے۔ بھاجپا کو پردیش کی گروپ بندی کی وجہ سے تینوں سیٹوں پر ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس جیت سے گد گد ہریش راوت نے جمعہ کو کہا کہ یہ کامیابی ایک خوش آئین پیغام ہے اور عوام کانگریس کو پھر سے طاقت دینا چاہتی ہے۔ انہوں نے جو کہا وہ غلط نہیں ہے اس جیت کا پیغام یہی ہے کہ اگر لوک سبھا میں پانچ سیٹیں نریندر مودی کی وجہ سے ملی تھیں تو ہار بھی انہیں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوگوں کو جس قدر جگایا اور سبز باغ دکھائے دو مہینے میں ہی ان کی پول کھل گئی۔ یہ صاف ہے کہ پارٹی نے پبلسٹی مشینری کے ذریعے عوام کو جس تحفے کے خوبصورت سبز باغ دکھائے اس کے اندر کچھ نہیں تھا اب ایسا عوام کو لگ رہا ہے۔
پچھلے 60 دنوں میں مہنگائی تیزی سے بڑی ہے اور مہنگائی کو لیکر سرکار فکر مند دکھائی دیتی ہے لیکن مہنگائی کہیں جاکر رکتی نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم ریل کا کرایہ 14.20 فیصدی بڑھے ہوئے دیکھیں اور مان لیں کہ مہنگائی کم ہوگی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے پیٹرول ۔ ڈیزل کے دام ہرمہینے بڑھیں گے اور مہنگائی کم ہونے کا دعوی بھی ہم قبول کریں؟ یہ کیسے مان لیں کہ روزگار دینے والی اقتصادی پارلیسیاں ہم نے قبول کی ہیں اور روز گار مل جائے؟ ہم یہ کیسے مان لیں کہ کرپشن کا مقابلہ کرنے کے لئے جس تکنیک کا وعدہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا اس کے بارے میں دیش کو کچھ نہ بتایا جائے اور کرپشن کم ہوجائے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایتی اور ورکر جب ملتے ہیں تو مجھے ان کی تشویشات دیکھ کر کانگریس سرکار کے وقت کے کانگریس کے فکر مند ورکروں کی یاد آجاتی ہے۔ سرکار کو کوئی فکر نہیں ہوتی تھی دعوے ہوتے تھے ، وعدے ہوتے تھے لیکن ورکر جانتا تھا گڑ بڑ ہورہی ہے۔ اس طرح آج بھی وعدے ہورہے ہیں۔
باہر وزیر یہ کہتا دکھائی دے رہا ہے کہ ہمیں وقت تو دیجئے ہم اچھے دن لاکر دکھائیں گے کیا اچھے دنوں کی تشریح بدل جائے گی؟ جس طرح غریبی کی تشریح یوپی اے II- سرکار کے وقت میں پلاننگ کمیشن نے پیش کی تھی؟ کیا اب اچھے دن کا مطلب ہم یہ مان لیں کہ جو دن چل رہے ہیں جنہیں پہلے ہم برے دن کہتے تھے، وہ اب بھی ہیں اور اس کی تشریح بھی اچھے دن تسلیم کرلیں؟ برائی اچھائی میں تبدیل ہوجائے گی؟ حال ہی میں ختم ہوئے لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کی ایسی دردشا ہوئی کہ وہ 44 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ ان کے پاس لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر بننے تک کیلئے بھی ضروری تعداد نہیں ہے لیکن بھاری اکثریت سے کامیاب بھاجپا کا گراف گرنا چونکانے والی بات ہے بلکہ اس کے لئے شرمناک بھی ہے۔ 
بھاجپا مانے یا نہ مانے اس کے لئے یہ پہلا جھٹکا ہے وہ اس سے سبق لے گی یا پھر اور جھٹکے کھائے گی؟ یہ اس سال کے آخر میں آنے والے اسمبلی چناؤ سے صاف ہوجائے گا۔ ہریانہ اور مہاراشٹر میں تو بھاجپا کے پاس وزیر اعلی کے طور پر پیش کرنے کیلئے کوئی لیڈر نظر نہیں آرہا ہے۔ بھاجپا میں گوپی ناتھ منڈے کے دیہانت کے بعد خلا پیدا ہوگیا ہے۔ وہاں نتن گڈکری ہی بڑے نیتا ہوسکتے ہیں لیکن مہاراشٹر میں جب تک پارٹی کا شیو سینا کے ساتھ اتحاد ہے بھاجپا دوسرے نمبر پر ہی رہے گی۔ 
بھاجپا میں اتنی مضبوطی نہیں ہے کہ وہ اپنے بوتے پر اکثریت لا کر دکھاسکے۔ ہریانہ میں اوم پرکاش چوٹالہ بھاجپا کے اتحادی ہوسکتے ہیں لیکن پارٹی ان سے پرہیز کررہی ہے۔ اترپردیش ، بہار میں بھی بھاجپا کی حالت ڈانواڈول ہے۔ ساتویں آسمان پر پہنچی بھاجپا دو مہینے کے بعد ہی دہلی میں ہمت ہار رہی ہے۔ اسے جیت کا بھروسہ نہیں ہے اس لئے دہلی میں اسمبلی چناؤ سے ڈر رہی ہے۔
امت شاہ کے قومی صدر بننے سے پارٹی میں بہت امیدیں تھیں جو اب تھوڑی کمزور پڑ رہی ہیں۔ امت شاہ اپنے پہلے امتحان میں ہی فیل ہوگئے۔ بھاجپا کا گراف اسی طرح گرتا رہا تو اس سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی چناؤ میں نتیجے چونکانے والے ہوسکتے ہیں۔اب بتائے اچھے دن کب آئیں گے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟