ووٹ بینک کی سیاست اترپردیش کوتباہ کررہی ہے!

10 مئی کو پیاؤ بنانے کے معمولی تنازعے نے میرٹھ شہر کے فرقہ وارانہ تشددکی آگ میں جھونک دیا۔ دوفرقوں کے درمیان گھنٹوں جم کر پتھراؤ، فائرننگ و آگ زنی ہوئی۔ دوکانوں کو لوٹا گیا۔ تشدد میں پانچ لوگوں کو گولی لگی، ایک نوجوان کو جان گنوانی پڑی۔ اسی طرح اگست2013ء میں کوال گاؤں میں چھیڑ چھاڑ کی چھوٹی واردات سے شروع ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نے مظفر نگر کو ہی نہیں یوپی کو دنیا میں بدنام کردیا۔ 28 اپریل کو مظفر نگر کے ہی سوجرو گاؤں میں فرقہ وارانہ فساد اور راشن کی تقسیم پر ہوگیا۔ 4 جولائی کو کانٹھ (مراد آباد) میں لاؤڈاسپیکر لگانے پر مچا واویلا ابھی خاموش نہیں ہورہا ہے اب سہارنپور کے دنگے نے ایک برس پرانے مظفر نگر کانڈ کو دوہرانے کی دہشت پیدا کردی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کی 247 وارداتوں کے ساتھ اترپردیش 2013ء میں ہوئے فسادات کے سلسلے میں ریاستوں کی فہرست میں چوٹی کے مقام پر ہے اور2014ء کی پوزیشن بھی کچھ الگ نہیں ہے۔ اترپردیش میں پچھلے سال فرقہ وارانہ فساد میں 77 لوگوں کی جان گئیں۔ وہیں اس سال کے اعدادو شمار وزارت داخلہ کے ذریعے ابھی اکھٹے کئے جانے ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق اس سال فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کی تعداد 65 ہے جن میں کم سے کم 15 لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔ اعدادو شمار گواہ ہیں جب سے سماجوادی پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے مغربی اترپردیش بے قابو ہے۔ اس خوشحال علاقے میں سماجی و اقتصادی ترقی کا تانا بانا بکھرتا جارہا ہے۔ چھوٹے تنازعے کو بڑا بنانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی پالیسیاں اور شفافیت اور ایمانداری کی کمی اوریہ سماج کیلئے خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ چناؤ جیتنے کی ووٹ بینک کی سیاست حاوی رہنے سے ماحول بگڑنے کا دعوی کرتے ہوئے ایک سابق ایم ایل اے کہتے ہیں کہ امیدوار طے کرنے کے لئے سبھی پارٹیاں ذات برادری کو ترجیح دیتی ہیں۔ ایسے میں ووٹ بینک بنانے کیلئے پالیسیوں میں غیر جانبداری برتنا آسان نہیں ہے۔ مظفر نگر فسادات میں جس طرح سے ایک طرفہ کارروائی ہوئی اس سے فرقہ وارانہ بھائی چارہ سماج میں رہ پانا ممکن نہیں ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ ووٹوں کو بنائے رکھنے کے لئے ذمہ دار نیتا بھی سچ سے منہ چراتے ہیں۔ مظفر نگر فسادات کا رنج پرامن لوگوں کے دل و دماغ پر ابھی باقی ہے جس میں سیاستدانوں کا رویہ انصاف پر مبنی نہیں رہا۔ ناکام ہورہے انتظامی حکام مظفر نگر فسادات پر سپریم کورٹ نے دنگا بھڑکانے اورکنٹرول نہ کرنے کیلئے پولیس اور مقامی حکام کو ذمہ دار مانا ہے۔ صرف ڈھائی برس پہلے کی بات ہے کہ پورے اترپردیش نے اکھلیش یادو کو بڑی حسرت کے ساتھ سر آنکھوں پر بٹھایا تھا اور وہ امید لگائے ہوئے تھے کہ یہ نوجوان لیڈر پردیش کی ترقی کا نیا باب لکھے گا۔ اگر سماج وادی پارٹی کی سرکار بنی تو جرائم پر نکیل بھی کسی جائے گی۔ یوپی میں بڑھتے فرقہ وارانہ فسادات نے اکھلیش یادو کی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ آج اترپردیش کی عوام کھلے عام یہ کہہ رہی ہے کہ اس سے تو مایاوتی کی سرکار اچھی تھی۔ سرکار کی نیت پر بھی شک ہونے لگا ہے۔ سرکار نے فساد متاثرین کو راحت پہنچانے کے نام پر خاصی رقم خرچ کی ہے لیکن 16 ویں لوک سبھا کے چناؤ میں ان کی مددووٹ کی شکل نہیں لے پائی۔ کورٹ کی پھٹکار سے سرکار انتظامیہ کی ناکامی ظاہر ہوجاتی ہے۔ ایک سابق پی سی ایس افسر کا کہنا ہے کہ سیاسی دباؤکے چلتے منصفانہ کارروائی ہونا ممکن نہیں ہے۔ حال ہی میں جانبدارانہ فیصلے بڑھے ہیں تو حالات بے قابو ہونا فطری ہے۔ انتظامیہ پہلے لاپروائی اور پھر جانبدارانہ رویہ معمولی سی بات کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ پولیس کی مقامی خفیہ یونٹ (ایل آئی یو) کی ناکامی بھی ہے ، جن کا کام ہی چھوٹے موٹے تنازعوں پر نظر رکھنا ہے۔ یہ سرگرم ہوتے تو شاید اترپردیش میں قانون و نظام کا یہ برا حال نہ ہوتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟