میڈیکل نظام میں چل رہے گورکھ دھندے پر ہرش وردھن نے اٹھائی آواز!

مرکزی وزیر صحت ڈاکٹرہرش وردھن مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے ایسے مسئلے پر ہاتھ ڈالا ہے جس کا سیدھا تعلق راجدھانی کے عام آدمی سے جڑا ہے۔ یہ اس لئے بھی قابل تعریف ہے کہ ڈاکٹرصاحت نے خود ڈاکٹر ہوتے ہوئے اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ معاملہ ہے ڈاکٹروں اور پیتھولوجی مراکز کی ملی بھگت کا۔ پیتھولوجی لیب کا مطلب ہے خون اور دیگر ٹیسٹ کرنے والی جانچ ایجنسی۔ یہ ملی بھگت اتنی گہری ہوچکی ہے کہ مریضوں کو چھوڑیئے خود جو سمجھدار ڈاکٹر ہیں وہ بھی اس ملی بھگت سے پریشان ہوچکے ہیں۔ چونکہ ڈاکٹر ہرش وردھن دہلی کے جانے مانے ڈاکٹر ہیں جو ہزاروں مریض دیکھتے ہیں تو انہیں جانکاری ہے اس گورکھ دھندے کی۔ مریض ڈاکٹر کے پاس اپنی بیماری لے کر جاتا ہے تو ڈاکٹر طرح طرح کی جانچ کرانے کوکہہ دیتا ہے۔ کئی بار یہ ضروری ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پیتھ لیب جو بل بنتا ہے جو عام طور پر موٹا ہوتا ہے اس میں سے پہلے سے ڈاکٹر کی کمیشن اسے پہنچا دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن نے یہ معاملہ لوک سبھا میں بھی اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیمار لوگوں کی غیر ضروری جانچ لکھی جاتی ہے تاکہ جانچ سینٹر کا بزنس بڑھے اور وہ بل میں سے ڈاکٹر کو کمیشن دے سکے۔ وزیر صحت نے کہا کہ اس گورکھ دھندے کی وجہ ڈاکٹر اور پیتھ لیب دونوں غیر ضروری منافع کما رہے ہیں۔زیادہ وقت نہیں گزرا جب خبر آئی تھی کہ دہلی میں واقع آل انڈیا میڈیکل انسٹیٹیوٹ( ایمس) کے کچھ امراض قلب کے ماہرین نے سوسائٹی فارلیس انویسٹی گیشن میڈیسن(سلم) نام سے پہل شروع کی ہے جس کا مقصد بہت زیادہ جانچ کرانے کی بڑے پیمانے پر پھیلی برائی کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس پہل سے جوڑے ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ جانچ سے متعلق ایسے رہنما اصول اور طریق�ۂ کار طے کررہے ہیں جس میں اس کا بیورا ہوگا کہ کن حالات میں کس قسم کی جانچ ضروری ہے۔ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں میں بھی ملی بھگت چل رہی ہے۔ بڑے بڑے ہسپتال ڈاکٹروں کو باقاعدہ سالانہ پیکیج دیتے ہیں جو لاکھوں میں ہوتا ہے۔ اس کے عوض میں ڈاکٹروں کو سالانہ طے شدہ مریض اور بزنس دینا ہوتا ہے۔ ضرورت نہ ہونے پر بھی ڈاکٹر اپنے لالچ کو پورا کرنے کے لئے کبھی کبھی جبراً مریض کو ہسپتال میں بھرتی ہونے کوکہہ دیتے ہیں۔ ایک بار مریض ہسپتال پہنچ گیا سمجھو اس کا تو بینڈ بج گیا۔ پہنچتے ہی سب سے پہلا کام ہسپتال یہ کرتے ہیں کہ مریضوں کو روپئے جمع کرنے کو کہتے ہیں۔ اس کا علاج ہی تب ہوتا ہے جب وہ ڈپازٹ دے دیتا ہے۔دہلی کے نجی ہسپتالوں میں علاج اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ غریب آدمی تو چھوڑیئے مڈل کلاس کے لوگ بھی یہاں علاج نہیں کراسکتے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ڈاکٹروں اور کیمسٹوں میں بھی سانٹھ گانٹھ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر مریض کو خاص کیمسٹ کے پاس بھیجتے ہیں جو مہینے بعدڈاکٹر کو کمیشن بھجوادیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی فیس اتنی بڑھ گئی ہے کہ غریب آدمی کا تو پسینہ چھوٹ جاتا ہے۔ اس لئے انہیں جھولا چھاپ ڈاکٹروں کی خدمت لینا پڑتی ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ سرکار ایسی نگرانی کا انتظام کرنے پر غور کررہی ہے جس میں پیتھولوجی لیب ڈاکٹروں نے ملی بھگت اور جانچ کی شرح طے کرنے میں ان کے ذریعے گٹ بنا کر کام کرنے کی کوشش پر روک لگائی جاسکے۔ سلم سے جڑے ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ اشتہارات کی طاقت کے ذریعے سالانہ پوری جانچ کرانے جیسی غیر ضروری باتیں لوگوں کے دماغ میں بٹھائی گئی ہیں جبکہ تحقیق سے نتیجہ نکلا ہے کہ ا سے بیماریوں کو روکنے میں کم ہی مدد ملے گی۔ ایک اور بڑی شکایت پرائیویٹ کلینکوں میں ڈاکٹروں کیلئے کم از کم کمائی کی شرط طے کرنا ہے۔ جس کی وجہ سے ڈاکٹر غیر ضروری جانچ لکھتے ہیں اور مریضوں کو ضرورت سے زیادہ وقت تک ہسپتالوں میں بھرتی رکھتے ہیں۔ اگر مریض ہسپتال سے پورا بیورا مانگے تو ہسپتال منع کردیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ایسا کیس سامنے آیا ہے خفیہ ایجنسی را کی سابق افسر نشا پریہ بھاٹیہ نے انسٹی ٹیوٹ آف بیہیویئر اینڈ ایلائڈ سائنسز سے اپنے میڈیکل ریکارڈ کی مانگ کی تھی، جہاں وہ دہلی ہائی کورٹ کے حکم پر بھرتی ہوئی تھیں۔ ہسپتال نے یہ ریکارڈ دینے سے منع کردیا اور کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ8(1) (s) کا حوالہ دیا۔اس دفعہ کے تحت کوئی بھی ایسی جانکاری اپنے پاس رکھ سکتا ہے جس میں جانچ میں رکاوٹ پیدا ہو۔ اس دلیل کو خارج کرتے ہوئے انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ نے کہا کہ مریضوں کوآئین کی دفعہ 19 اور21 کے تحت اپنا میڈیکل ریکارڈ حاصل کرنے کا حق ہے اور مدعا علیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اسے مہیا کرائے۔ انہوں نے کہا کہ انفارمیشن کمیشن سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے خلاف مریضوں کو جانکاری حاصل کرنے کو لیکر اس حق کو بحال کرسکتا ہے۔ہسپتالوں کا یہ فرض ہے کہ وہ جانکاری کا حق قانون 2005، صارفین تحفظ قانون 1996، میڈیکل کونسل ایکٹ 1956 اورعالمی صحتی اصولوں کے تحت جانکاری مہیا کرائے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ڈاکٹر ہرش وردھن نے ان ہسپتالوں کے تئیں بیداری دکھائی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ صحت کے میدان میں آئی برائیوں کو سنجیدگی سے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ غریب آدمی کو سستا اور صحیح علاج ملے یہ مودی سرکار کی اولیت میں سے ایک ہونا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟