وقت بتائے گا نئی دہلی اور مشرقی دہلی پارلیمانی سیٹ پر کس کا ہوگا دبدبہ!

دہلی کی سبھی ساتوں پارلیمانی سیٹوں کے لئے نام واپسی کے آخری دن کل150 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ چاندنی چوک سیٹ پر9 اور نارتھ ایسٹ دہلی سے 14 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں۔ دہلی میں مجموعی طور پر ساتوں سیٹوں کیلئے 150 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں۔ نئی دہلی سیٹ صرف دہلی کے لئے ہی نہیں بلکہ دیش کے لئے ہمیشہ وی آئی پی سیٹ رہی ہے۔ اس سیٹ کی اہمیت اسی بات سے لگتی ہے کہ اٹل بہاری واجپئی، لال کرشن اڈوانی، راجیش کھنہ جیسی سرکردہ ہستیاں یہاں سے ایم پی رہ چکی ہیں۔ نئی دہلی پارلیمانی سیٹ پر ایک بار پھر دیش کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے میں یہاں سے اہم امیدواروں کے بارے میں روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں کہ نئی دہلی پارلیمانی سیٹ پر سرکاری ملازمین کا ایک بڑافیکٹر ہے لوک سبھا سیٹ پرہار یا جیت طے کرنے میں سرکاری ملازمین کا نظریہ سب سے بڑا فیکٹر ثابت ہونے والا ہے۔ حلقے میں ویسے تو دہلیمیں باقی 6 لوک سبھا سیٹوں کے مقابلے میں چاندنی چوک میں اور نئی دہلی میں سب سے کم ووٹر ہیں۔ نئی دہلی حلقے میں سرکاری ملازمین کا تناسب زیادہ ہے اور اس میں 14.89 لاکھ ووٹروں میں 2.5 لاکھ سرکاری ملازم ہیں۔ ایسے میں ان کا فیصلہ ایک بڑا فیکٹر ثابت ہوگا۔ ان ووٹروں کے لئے بھاجپا اور عام آدمی پارٹی کے امیدوار نئے ہیں وہیں کانگریس کے اجے ماکن مسلسل دو بار اس سیٹ سے ایم پی رہ چکے ہیں۔ حال ہی میں دہلی اسمبلی چناؤ میں یہیں سے اروند کیجریوال نے وزیر اعلی محترمہ شیلا دیکشت کو بھاری ووٹوں سے ہرایا تھا۔حلقے کے اندر آنے والی 10 میں سے7 اسمبلی سیٹوں پر ’آپ‘ پارٹی کے امیدوار جیتے تھے۔ اسی ہوا کا فائدہ اٹھانے کے لئے لوک سبھا چناؤ کے لئے آشیش کھیتان کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ کانگریس نے یہاں موجودہ ایم پی اجے ماکن پر پھر سے بھروسہ جتایا ہے۔ وہیں بھاجپا نے پارٹی کی ترجمان تیز طرار خاتون میناکشی لیکھی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ پچھلے دو لوک سبھا چناؤ میں اجے ماکن نے بازی ماری تھی اور اس بار وہ ہیٹ ٹرک لگانے کی کوشش میں ہیں۔ سہ فریقی مقابلے میں میری رائے میں تو اجے ماکن سیٹ نکال سکتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں دوسری مقبول ترین سیٹ مشرقی دہلی کی۔ کبھی بی جے پی کو کبھی کانگریس کی جھولی میں جاتی رہی ہے۔ اس بار اس سیٹ پر بھی کثیر رخی مقابلہ ہے۔ عام آدمی پارٹی کے امیدوار اور مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی کے یہاں سے چناؤ لڑنے سے اس سیٹ پر دیش دنیا کی نظریں لگ گئی ہیں۔ موجودہ ایم پی اور شیلا دیکشت کے صاحبزادے سندیپ دیکشت یہاں سے ہیٹ ٹرک لگانے کے چکر میں ہیں لیکن ان کی راہ آسان نہیں دکھائی پڑتی۔ اس بار ان کا مقابلہ گاندھی گیری یعنی ’آپ‘ کے امیدوار راج موہن گاندھی اور بھاجپا کے مہیش گیری سے ہے۔ مشرقی دہلی کسی خاص پارٹی کا گڑھ نہیں رہی ہے۔1967ء میں اس سیٹ کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک ہوئے 12 لوک سبھا چناؤ میں 6 بار کانگریس اور اتنی ہی بار بھاجپا و بھارتیہ لوک دل، بھارتیہ جن سنگھ کامیاب ہوتی رہی ہے۔ اس حلقے میں 16 لاکھ سے زیادہ ووٹر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا بھاجپا اور کانگریس کے ہاتھوں میں رہی یہ سیٹ اس بار اپنے وقار کو برقرار رکھ پاتی ہے یا نہیں؟ 1980 سے اس سیٹ کی خاصیت یہ رہی ہے جو امیدوار یہاں سے ایک بار جیتا اسے یہاں کے لوگوں نے دوبارہ کام کرنے کا موقعہ ضرور دیا ہے۔ 1980ء میں کانگریس کے لیڈر سورگیہ ایچ۔کے۔ ایل بھگت1980 سے1991 تک ایم پی رہے۔ اس کے بعد باری آئی بھاجپا کی 1991ء میں مشرقی دہلی کے لوگوں نے بھاجپا کے لیڈر بی ۔ ایل شرما پریم کو چن کر پارلیمنٹ بھیجا تھا پھر کیا تھا وہ بھی 91 سے97 تک دو بار ایم پی رہے۔ اس کے بعد بھاجپا کے ہی لال بہاری تیواری نے1997 سے2004 تک تین بار ایم پی چنے گئے۔ مشرقی دہلی کی10 سیٹوں میں سب سے زیادہ پانچ اسمبلی سیٹیں عام آدمی پارٹی کے پاس ہیں۔دوسرے نمبر پر بی جے پی کے پاس3 سیٹیں ہیں کل اسمبلی میں70 سیٹوں میں سے 8 سیٹوں پر کانگریس سمٹ گئی۔کانگریس کو دو سیٹیں ہی مل پائیں۔ مشرقی دہلی کے ذات پات کے تجزیئے پر ایک نظرڈالیں تو مسلم ووٹروں کی تعداد 15 فیصدی سے کچھ زیادہ ہے۔ اوکھلا، کرشنا نگر، گاندھی نگر اور شاہدرہ میں ان کی موجودگی کافی مضبوط ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر دلتوں کی تعداد ہے جو 14.82 فیصد ہے جبکہ پنجابی کم ہیں14.35 فیصدی۔ سندیپ دیکشت کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کی ٹیم کا حصہ ہیں اور وہ کانگریس کے ترجمان بھی ہیں اور اسی سیٹ سے چناؤ لڑ رہے ہیں اور کام بھی کیا ہے۔ بھاجپا کے امیدوار مہیش گیری روی شنکر آرٹ آف لیونگ کے ممبر ہیں۔ سیاست میں نئے ہیں لیکن حلقے میں وہ پچھلے دو سال سے سماج سیوا کے ذریعے سے جڑے ہوئے ہیں۔عام آدمی کے امیدوار راج موہن گاندھی پہلے بھی چناؤ میں اپنی قسمت آزما چکے ہیں اس وقت انہوں نے امیٹھی میں راجیو گاندھی کے خلاف چناؤ لڑا تھا اور ہار گئے تھے۔ راج موہن نے اب بھی اپنی نیا پار لگانا چاہتے ہیں۔ بھاجپا کی سب سے بڑی امید مودی کی مقبولیت پر ٹکی ہے۔ دیکھیں کس کرونٹ اونٹ بیٹھتا ہے؟ مسلم بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار شکیل سیفی بھی اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!