پنجاب کا سب سے بڑا دلچسپ مقابلہ: ارون جیٹلی بنام کیپٹن امرندر سنگھ!

بھارتیہ جنتا پارٹی کے راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی آئے تو تھے امرتسر کو بھاجپا کا ایک مضبوط اور محفوظ قلعہ مان کر لیکن کانگریس نے ان کے سامنے کیپٹن امرندر سنگھ جیسے مضبوط امیدوار کو اتار کر ان کی ڈگر ہلا دی۔ اگر ڈگر مشکل جیٹلی کی ہوئی ہے تو کیپٹن امرندر سنگھ کا بھی اب مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ پہلے کیپٹن نے امرتسر سے چناؤ لڑنے سے منع کردیا تھا لیکن کانگریس اعلی کمان (سونیا ۔ راہل) کے حکم کے بعد ان کو میدان میں کودنا پڑا۔دراصل امرتسر سیٹ سے کانگریس کو جیٹلی کے خلاف ایک مضبوط اور بڑے امیدوار کی تلاش تھی اور اس سلسلے میں ہائی کمان نے کیپٹن کو بھٹنڈہ یا امرتسر سے چناؤ لڑنے لو کہا تھا لیکن انہوں نے اسے یہ کہہ کر منع کردیا کہ وہ انہیں سیٹوں تک محدود رہ جائیں گے اور پٹیالہ سے چناؤ لڑرہی اپنی بیوی اور وزیر مملکت خارجہ پرمیت کور کے علاوہ ریاست میں پارٹی کے لئے چناؤ کمپین نہیں کرسکیں گے۔ بتایا جاتا ہے ریاست میں پارٹی کی حالت کو دیکھتے ہوئے اعلی کمان نے کیپٹن کو امرتسر سیٹ سے چناؤ لڑنے کے لئے منا لیا۔ ان کی امیدواری کا اعلان ہوتے ہیں امرتسر میں کانگریس ورکروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پارٹی کے مقامی لیڈر جگل کشور شرما نے کیپٹن کی امیدواری کے بعد ضلع یونٹ میں اندرونی رسہ کشی ختم ہونے کا دعوی کیا اور کہا سبھی متحد ہوکر انہیں بھاری ووٹوں سے کامیاب بنانے میں لگ جائیں گے۔امرتسر سیٹ نے 1951 ء سے 2009 ء تک کے لوک سبھا چناؤ نتائج پر کانگریس کا ہی دبدبہ رہا ہے۔ 1999 ء تک کے چناؤ میں یہاں سے 8 بار کانگریس کامیاب رہی جبکہ 1998 اور 2004 اور 2009 میں یہاں سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور 1967-77 کے دو چناؤ میں دوسری پارٹیاں کامیاب رہیں۔ امرتسر کی سیاست میں اچانک بدلے پس منظر میں آئی تبدیلی نے ارون جیٹلی کی مشکل بڑھا دی ہے۔ ایک طرف تو یہاں پردیش بھاجپا میں گروپ بندی چل رہی ہے تو دوسری طرف ریاستی بھاجپا پردھان کمل شرما خود امرتسر سیٹ کے لئے دعویدار تھے۔ بادل بھی خود امرتسر سیٹ سے دعوے دار تھے۔ بادل چاہتے تھے کہ کمل شرما اس حلقے سے امیدوار ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیٹ پر نوجوت سنگھ سدھو کو الگ کیا گیاتھا لیکن کمل شرما کے بجائے بھاجپا ہائی کمان نے یہاں ارون جیٹلی کو بھیج دیا جس سے بھاجپا میں گروپ بندی شروع ہوگئی جس وجہ سے امرتسر سیٹ پر اس کا اثر پڑے گا۔ یہ اور بات ہے جیٹلی جیسے قومی سطح کے لیڈر کے سامنے آنے سے کوئی کھل کر بول نہیں پایا۔ امرتسر پارلیمانی سیٹ پر غور کریں تو یہاں ہندو اور سکھوں کی اوسط آبادی 65-35 کے آس پاس ہے۔ 9 میں 4 شہری اسمبلیوں کو چھوڑ کر باقی پانچ اسمبلی حلقوں میں دیہی آتے ہیں سکھ اکثریتی علاقوں میں جیٹلی کو اکالی ووٹ پر منحصر رہنا ہوگا کیونکہ شہروں میں بھاجپا کی بنیاد تو ہے لیکن اتحادی سرکار کی مخالف پالیسیوں کے سبب ووٹ بھاجپا سے کٹا ہوا ہے۔ کانگریس اور اکالیوں کے درمیان بنٹتا رہا ہے۔سدھو کے حمایتی جیٹلی کو ٹکٹ دینے کے فیصلے سے ناراض ہیں۔ اس کا خمیازہ بھی جیٹلی کو بھگتنا ہوگا۔ دوسری طرف کیپٹن امرندر سنگھ کانگریس میں مقبول ہیں اور ریاست کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں اور امرتسر کے سبھی سابق اور موجودہ کانگریسی ایم ا یل اے ان کے گروپ میں ہیں۔امرتسر بار ایسوسی ایشن کی دعوت پر وکیلوں کی حمایت مانگنے بارروم گئے ارون جیٹلی کو کانگریس حمایتی وکیلوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اتنا ہی نہیں ان کے سامنے کانگریس اور کیپٹن امرندر سنگھ زندہ باد کے نعرے لگائے۔ امرندر سنگھ نے جیٹلی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط نیتا پردھان منتری بننے کی اپنی توقعات کو پورا کرنے کے لئے سیٹ نہیں مانگتے۔جوابی حملہ کرتے ہوئے جیٹلی نے انہیں ا مرتسر میں ہی بتانے کے لئے سوال کیا کہ ان کی پارٹی چیف سونیا گاندھی کس ریاست سے آتی ہیں؟ پنجاب میں میری آبائی جڑیں ہیں۔ کیپٹن صاحب نے مجھے باہری اور فرضی پنجابی قراردیا براہ کرم وہ مجھے یہ بتائیں گے کہ شریمتی سونیا گاندھی بھارت کی کس ریاست سے آتی ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!