نریندر مودی کا مشن272+ بنام راجناتھ سنگھ کا خفیہ مشن!

عام چناؤ میری رائے میں مودی بنام باقی بن گیا ہے۔ کانگریس، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، انا ڈی ایم کے و عام آدمی پارٹی سبھی نریندر مودی سے لڑ رہے ہیں اورکوئی اشو نظر نہیں آرہا ہے۔ اس چناؤ میں نریندرمودی اپنے مشن272+ پر دن رات لگے ہوئے ہیں لیکن پچھلے کچھ دنوں سے جو مودی حامی ہوا دیش میں بنی تھی اس کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خود بھارتیہ جنتا پارٹی ہی ہے۔ پارٹی میں ٹکٹوں کے بٹوارے کو لیکر پیدا ہوئی ناراضگی اور وفادار بزرگ نیتاؤں کی بے عزتی وغیرہ کے کہرام میں مودی کے مشن 272+ کے پنکچر ہونے کا خطرہ کھڑا کردیا ہے۔ پارٹی لیڈر شپ خاص کر پارٹی پردھان راجناتھ سنگھ کے فیصلوں نے بھاجپا کے لئے مصیبتیں بڑھا دی ہیں۔ پنجاب میں غبارہ پھٹنے سے لگی آگ بھاجپا کی بڑھتی پریشانی کا ایک نمونہ ہے۔ یوپی میں سڑکوں پر گھٹ رہے ورکروں کے غبار کی آنچ مشن مودی کے پسینے چھڑاتی دکھائی دے رہی ہے۔ جنہیں مخالف سیناؤں سے مورچہ لینے کے لئے زمین پر دکھائی دینا چاہئے لیکن ورکر لیڈر شپ کے فیصلے سے خفا ہوکر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ پارٹی پردھان ایسا کیوں کررہے ہیں؟ کیا بھاجپا پردھان راجناتھ سنگھ کی نظر وزیر اعظم کی کرسی پر لگی ہے؟ انہوں نے کئی ایسے قدم اٹھائے جس سے تو یہ ہی لگتا ہے۔ حالانکہ وہ کھل کر تو کچھ نہیں بول رہے ہیں لیکن ان کے ٹوئٹ وغیرہ سے کئی معنی نکالے جارہے ہیں۔ دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے۔ بھاجہا پردھان راجناتھ سنگھ کے ساتھ پیر کو ایسا ہی ہوا۔ دیش بھر میں جو بھاجپا کے بینر ،پوسٹر لگے ہیں ان پرصرف مودی کی تصویر ہے اور الگ الگ اشو پر ایک نعرہ لکھا گیا ہے’اب کی بار مودی سرکار‘ ۔ راجناتھ کے ٹوئٹرسے پیر کی دوپر 1:17 پر ایک پوسٹر پوسٹ کیا گیا اس میں لکھا تھا ’اب کی بار بھاجپا سرکار‘ تصویر بھی مودی کی جگہ راجناتھ کی لگی ہوئی تھی۔ تجزیہ کار جس طرح اس پر رائے دے رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ بھاجپا اور اس کے پردھان کو کچھ دیر سے بات سمجھ آئی ہے بات اور تصویر دونوں ہی ہضم نہیں ہورہے ہیں۔33 منٹ بعد 1:50 پر ٹوئٹر سے پہلے والا پوسٹر ہٹا دیا گیا اور مودی کی تصویر اور انہیں کے نعرے والا پوسٹر پھر آگیا’ اب کی بار مودی سرکار‘۔ دراصل سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پارٹی نے مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بنایا ہے لیکن راجناتھ سنگھ کی نظریں بھی پی ایم کی کرسی پر ہیں۔ ویسے بھی ان دنوں بھاجپا میں تین پی ایم امیدوار ہیں ایک اعلان کردہ نریندر مودی ، ایک ویٹنگ (لال کرشن اڈوانی) اور ایک پوشیدہ یعنی راجناتھ سنگھ۔سیاسی واقف کاروں کی مانیں تو راجناتھ سنگھ نریندر مودی کو آگے رکھ کر خود کو پی ایم بنانے کے لئے بھی خفیہ مشن پر کام کررہے ہیں۔ اگر پارٹی اور اتحاد کو لوک سبھا چناؤ کے بعد مکمل اکثریت نہیں ملتی ہے اور مودی کے نام پر اتفاق رائے نہیں بن پاتا تو کوئی تعجب نہیں ہوگا کہ راجناتھ سنگھ اتفاق رائے سے پی ایم امیدوار کی شکل میں خود کو آگے کردیں۔ یہ بھی تذکرہ ہے کہ راجناتھ سنگھ نے اس سلسلے میں کچھ پارٹیوں اور کچھ لیڈروں سے بھی بات کررکھی ہے۔ مانیں یا نہ مانیں کہیں نہ کہیں راجناتھ سنگھ کے دل میں پی ایم بننے کی تمنا ہے۔ ایک سنت نے ان پر مودی کے خلاف سازش رچنے کا بھی الزام لگایا تھا۔ شری لال کرشن اڈوانی ،راجناتھ سنگھ کی چال کو سمجھ گئے ہیں کہ کیسے انہیں سیاسی پس منظر سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ کہیں مودی کے مشن 272+ پر راجناتھ سنگھ کا مشن بھاری نہ پڑ جائے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!