اسمبلی انتخابات 2013 کے نتائج کانگریس کیلئے سبق!

کیا ہے اسمبلی چناؤ کے نتائج2013 کا پیغام؟جنادیش کانگریس پارٹی کے خلاف ہے۔ یہ کرپشن، گھوٹالوں اور مہنگائی،عورتوں کی عدم سلامتی اور سب سے زیادہ کانگریس کے غرور اور برتاؤ کے خلاف ہے۔ جنتا اب ماننے لگی تھی کہ چاہے وہ مرکز کی کانگریس سرکار ہو یا دہلی کی شیلا دیکشت سرکار ہو ، انہیں اتنا غرور ہوگیا ہے کہ اب انہیں جنتا کے دکھ درد کی قطعی پرواہ نہیں رہ گئی ہے۔ مہنگائی سے گرہستن کس طرح سے مقابلہ کررہی ہیں اس کی کانگریس پارٹی کو قطعی پرواہ نہیں تھی۔نوجوانوں میں اپنے مستقبل کو لیکر کتنی فکر تھی اس سے اس سرکار کو کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ کانگریس نے تو مان لیا تھا کہ وہ زندگی بھر اقتدار پر قابض رہنے کیلئے پیدا ہوئی ہے بھلے ہی جنتا کچھ بھی سوچے، کچھ بھی کہے۔آج سے کچھ برس پہلے تک کرپشن کوئی اشو نہیں تھالیکن بدعنوانی کے سبب جب گھوٹالے پر گھوٹالے کا پردہ فاش ہوا اور پچھلے دو تین سال میں تو سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے تو عوام نے اس گھوٹالوں کو سیدھے مہنگائی سے جوڑنا شروع کردیا۔ عوام ماننے لگی کہ ان گھوٹالوں کی وجہ سے ہی آسمان چھوتی، کمر توڑ مہنگائی ہوئی ہے۔ اسے پکا یقین اس وقت ہوا جب اسے لگنے لگا کہ یہ سرکار چاہے وہ مرکز کی ہو یا ریاست کی ہو، انہیں نہ تو مہنگائی کی فکر ہے اور نہ ہی ان میں اسے روکنے کی کوئی قوت ارادی۔ ان میں اتنی اکڑ یعنی غرور آچکا تھا کہ یہ اپنی ہی دنیا میں جینے لگے تھے اور جنتا سے بالکل کٹ کر رہ گئے تھے۔ عوام کے دکھ درد سے انہیں کوئی واسطہ نہیں رہا۔ ایسے وقت انا ہزارے منظر عام پر آئے۔ پچھلے سال جب انہی اشو کو لیکر رام لیلا میدان پر انشن کے لئے بیٹھ گئے تو دہلی کی جنتا پہلی بار لاکھوں کی تعداد میں رام لیلا میدان پہنچی۔ وہ انا کیلئے نہیں گئی بلکہ وہ اپنی بھڑاس نکالنی گئی تھی۔ انہیں جو سرکار اور اس کی پالیسیوں سے ناراضگی تھی اس غصے کو ظاہر کرنے کیلئے گئی تھی۔ انا کے ساتھ اروند کیجریوال بھی تحریک کا ایک اہم حصہ بنیں۔ انا کا انشن تو ختم ہوگیا لیکن اروند کیجریوال کا سیاسی سفر وہیں سے شروع ہوگیا۔ انہوں نے ’آپ‘ پارٹی بنا لی اور انہیں اشو کو لیکر انہوں نے جنتا سے رابطہ کرنا شروع کردیا۔’آپ‘ پارٹی کو نہ تو کانگریس نے اور نہ ہی بھاجپا نے پہلے سنجیدگی سے لیا لیکن دہلی میں ایک زبردست اندر ہی اندر لہر چل رہی تھی آپ پارٹی کے حق میں۔ اس لئے جب پول سروے آئے اور ایگزٹ پول آئے کسی نے بھی ’آپ‘ کو اتنی سیٹیں جیتتے نہیں دکھایا تھا۔ بیشک ایگزٹ پول عام طور پر صحیح ثابت ہوتے ہیں لیکن غلطی ان کی ’آپ‘ پارٹی کو لیکر اور کانگریس کی کارکردگی کو لیکر ہوگئی۔ بھاجپا کو تو تقریباً سبھی نے 32 سیٹوں کی پیش گوئی کی تھی لیکن اروند کیجریوال اینڈ کمپنی اتنی سیٹیں لے لیں گے کسی کو یہ تصور بھی نہیں تھا۔ مجھے شیلا جی سے تھوڑی ہمدردی ہورہی ہے۔ شیلا جی سے کئی غلطیاں ضرور ہوئیں جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے اس چناؤ میں جی جان سے محنت کی لیکن ان کی ٹیم و تنظیم اور وزرا نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ اکیلی میدان میں ڈٹی رہیں۔ کانگریس کے ورکروں کا مطالبہ تھا اور وقت کا تقاضہ تھا کہ کانگریس اپنے کچھ امیدواروں، جن میں کچھ وزیر بھی شامل تھے کو بدلے۔ ان کے خلاف نگیٹو فیکٹر کام کررہا تھا لیکن شیلا جی نے جوا کھیلا اور سارے موجودہ ممبران اسمبلی کو میدان میں اتاردیا۔ ورکروں کی مانگ کو مسترد کردیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیلا جی خود بھی ہاریں اور پارٹی کی بھی لٹیا ڈوب گئی۔ ایک اور بڑی وجہ تھی مرکزی سرکار کی پالیسیاں۔ مہنگائی سب سے بڑا اشو تھا۔ آلو، پیاز، ٹماٹر کی قیمتوں نے گرہستنوں کا بجٹ ہی بگاڑ دیا تھا۔ مرکزی حکومت کی پالیسیوں کا یہ حال تھا کہ چناؤ سے ٹھیک پہلے 50پیسے فی لیٹر ڈیزل کے دام بڑھا دئے۔ یہ جنتا کو توجہ نہ دینے کے لئے قدم اٹھائے گئے تھے۔ جنتا نے بھی طے کررکھا تھا کہ کانگریس کو اس بار سبق سکھانا ہے۔ بھاجپا نے دہلی میں شاندار پرفارمینس دی ہے۔ اصل الٹ پھیر تو کانگریس اور ’آپ‘ پارٹی کے درمیان ہوا۔ جو سیٹیں عام طور پر کانگریس کو ملتی تھیں وہ ’آپ ‘ کو چلی گئیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ عام چناؤ میں مشکل سے6 مہینے کا وقت بچا ہے۔ اب کانگریس یہاں سے آگے کیسے چلے گی، سب سے بڑا سوال تو لیڈر شپ کو لیکر ہے۔ سونیا گاندھی، راہل گاندھی کی لیڈرشپ بری طرح بے نقاب ہوگئی ہے۔ سردار منموہن سنگھ نہ تو تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ راہل گاندھی بالکل پھسڈی ثابت ہوئے ہیں ان کی قیادت میں پارٹی کا لوک سبھا چناؤلڑنے پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ پرینکا نے صاف کردیا ہے کہ وہ امیٹھی اور رائے بریلی سے باہر نہیں جائیں گی۔ اس صورت میں صرف سونیا گاندھی ہی بچتی ہیں۔ کیا لوک سبھا چناؤ سونیا گاندھی بنام نریندر مودی ہوگا؟ کانگریس میں نہرو گاندھی خاندان کے علاوہ مجھے تو کوئی اور لیڈر وزیر اعظم امیدوار کے طور پر دکھائی نہیں دیتا۔ کانگریس کی یہ چوطرفہ ہار 2014ء لوک سبھا چناؤ کو سیدھا طور پر متاثر کرے گی۔ کانگریس تنظیم پوری طرح لڑکھڑا گئی ہے۔ ورکروں کا حوصلہ ٹوٹنا فطری ہے۔ سیاست میں کسی کو کنارے کرنا صحیح نہیں ہوتا۔ ہمارے سامنے کئی مثالیں ہیں۔پارٹی تقریباً تباہ ہوچکی ہے اور پھرکانگریس دیش کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے وہ واپسی کیسے کر سکتی ہے لیکن اس کے لئے اچھی لیڈر شپ تنظیم سب سے اہم ہے۔ صحیح اشو اٹھانا جنتا کو سیدھے متاثر کرنے والے اشوز پر خاص توجہ دینا، ان اسمبلی چناؤ کے نتائج ایسے وقت آئے ہیں جب پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس چل رہا ہے ایسے میں کانگریس اور سرکار کے سامنے سب سے بڑی چنوتی ہوگی اس سیشن میں اپوزیشن کے حملوں کو جھیلنا۔پارٹی صدر سونیا گاندھی نے ہار کے بعد لوک سبھا چناؤ سے پہلے اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کی بات کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چار ریاستوں کے اسمبلی چناؤ نتائج کو لیکر پارٹی بیحد مایوس ہے۔ حالانکہ ساتھ یہ بھی کہا کہ ان نتیجوں کا عام چناؤ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ عام چناؤ بالکل الگ ہوتے ہیں۔ ہم سنجیدگی سے محاسبہ کریں گے اور اپنی غلطیوں کو کام کاج کے طریقوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہیں راہل گاندھی نے تسلیم کیا ہے وہ ’آپ‘ پارٹی سے بہت کچھ سیکھیں۔ ہم ’آپ‘ پارٹی کی کامیابی سے سبق لیں گے۔ لوک سبھا چناؤ میں اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کانگریس جنادیش اسمبلی چناؤ2013 سے کیا سبق سیکھتی ہے اور اپنے آپ میں بہتری کو تیار ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟