دہلی اسمبلی چناؤ2013 نتائج کے دلچسپ منظر!
دہلی میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہ دے کر دہلی کے رائے دہندگان نے اس تاریخی چناؤ کا ذائقہ تھوڑا کرکرا ضرور کردیا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ یا تو بھاجپا کی سیٹیں بڑھا دیتے یا پھر عام آدمی پارٹی کو اکثریت دے دیتے۔ اب کسی کو واضح اکثریت نہ مل پانے کے سبب معلق اسمبلی کے صورتحال سامنے آئی ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں میں سے کوئی بھی کسی کو حمایت دینے یا لینے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت بنانے کے لئے سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں ابھر کر آئی بھاجپا کو چار اور دوسرے نمبر پر آئی عام آدمی پارٹی کو 8ممبران کی حمایت چاہئے۔ یہ دونوں کے لئے حاصل کرپانا آسان نہیں ہے۔ ایسے میں کیا متبادل ہوسکتے ہیں نمبر ایک :سب سے بڑی پارٹی کے ناطے بھاجپا حکومت بنانے کا دعوی کرے یا پھر انتظار کرے کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ صاحب ڈاکٹر ہرش وردھن کو دعوت دیں۔ نمبر دو: بھاجپا کودعوت ملے اور یقینی وقت میں ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کو کہیں۔ بھاجپا اس کو منظور کر بھی لیتی ہے تو اس کے لئے اکثریت ثابت کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب کانگریس میں ٹوٹ پھوٹ ہوجائے اور اس کے دو تہائی ممبران حمایت دے دیں۔ لیفٹیننٹ گورنر بھاجپا کے انکار کرنے پر عام آدمی پارٹی کو مدعو کر سکتے ہیں اور مشروت حکومت بنانے کی دعوت دے سکتے ہیں لیکن وہی بات آئے گی کہ اکثریت ثابت کیسے کرے گی؟ بھاجپا یا کانگریس میں سے ایک کو اس سرکار کی حمایت کرنی پڑے گی۔ آخری متبادل ہے دہلی میں صدر راج لگے گا اور اسمبلی کو التوا میں رکھ کر انتظار کریں یا پھر اس کو توڑ کر نئے سرے سے چناؤ ہوں۔ اس اسمبلی چناؤ میں کئی دلچسپ چیزیں سامنے آئی ہیں۔ نہ تو اس میں کوئی گلیمر چلا اور نہ ذات پات کارڈ ،نہ بزرگی۔ ان انتخابات میں سوشل میڈیا کا بھی اہم رول رہا۔ پہلے بات کرتے ہیں گلیمر نہ چلنے کی۔ دہلی یونیورسٹی اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن چناؤ میں کامیابی کی گارنٹی رہا خوبصورت چہروں کا جادو دہلی کے دنگل میں نہیں چلا۔ نہ صرف گلیمر کا تڑکا نہیں لگ پایا بلکہ سیاست کی نرسری ڈوسو کے ذریعے اسمبلی چناؤ میں آنے والے امیدواروں کی امید ٹوٹ گئی جس میں کانگریس کی راگنی نائک اور امرتا دھون تو وہیں آپ کی شازیہ علمی۔ ان کی ہار پر تھوڑا دکھ ضرور ہوا ہے کیونکہ وہ کل326 ووٹوں سے ہاریں جبکہ اس سے زیادہ ان کی اسمبلی پولنگ حلقے میں نوٹا کے سب سے زیادہ بٹن دبے۔ انہوں نے انہیں ہرادیا۔478 ووٹروں نے یہ نوٹا بٹن دبایا۔ آخری لمحے میں اسٹنگ آپریشن نے بھی شازیہ کو ہروادیا۔ نوٹا کی بات کریں تو سبھی اسمبلی حلقوں میں اس کا استعمال ہوا۔ اندازہ ہے 50 ہزار سے زیادہ لوگوں نے نوٹا کا بٹن دبایا اور سب سے زیادہ نئی دہلی اسمبلی سیٹ پر جہاں سے شیلا دیکشت، اروند کیجریوال چناؤ میدان میں تھے وہاں تک460 ووٹروں نے سبھی امیدواروں کو نامنظور کردیا۔ کچھ امیدواروں کی امیدوں پر پانی پھیردیا۔ وکاس پوری اسمبلی سیٹ پر جہاں ہار جیت کے درمیان فرق محض 400 ووٹوں کا رہا وہیں نوٹا کو1426 ووٹ ملے۔وہیں آر کے پورم میں528 ووٹروں نے نوٹا کا بٹن دبایا جبکہ ہار جیت کا فرق محض326 کا رہا۔ دہلی اسمبلی چناؤ کے سب سے بزرگ 80 سال کے امیدوار اور گنیز بک ریکارڈ میں نام درج کرانے والے چودھری پریم سنگھ بھی اس بار اپنی سیٹ نہیں بچا پائے۔ 1958ء سے مسلسل جیتنے والے چودھری پریم سنگھ کی سیٹ عام آدمی پارٹی کے امیدوار اشوک کمار نے جیت لی۔ اگر ہم چھوٹی پارٹیوں کی بات کریں تو جہاں اکالی دل نے بھاجپا کے ساتھ اتحاد کرکے اپنے کوٹے کی چار سیٹوں میں سے تین پر زور دار جیت حاصل کرکے اپنا دم دکھایا وہیں بسپا اور سپا اپنا کھاتا بھی نہیں کھول پائیں۔ اکالی دل کے سب سے کمزور امیدوار ہرمیت سنگھ کالکا نے کالکاجی سیٹ پر بھاجپا کے چناؤ نشان پر جیت حاصل کر چونکادیا۔ شاہدرہ سیٹ پر کمل چناؤ نشان پر لڑ رہے جتندر سنگھ شنٹی نے ڈاکٹر نریندر ناتھ جیتے وفادار کانگریسی نیتا کو پچھاڑدیا۔ دہلی کی ریزرو سیٹوں کے ووٹروں پر عام آدمی کا جادو سر چڑھ کر اس بار بولا۔2008ء میں بدر پور اور گوکلپور سیٹ جیت کر اپنی موجودگی درج کرانے والے ہاتھی کو جھاڑونے اس بار صاف کردیا۔ اتنا ہی نہیں کئی سیٹوں پر وہ ایک ہزار سے کم ووٹوں پر سمٹ گئی۔ دہلی چھاؤنی گریٹر کیلاش ، جنگپورہ، کستوربا نگر سمیت دیگر سیٹیں ایسی رہیں کہ بسپا امیدوار محض ایک ہزار ووٹوں پر ہی سمٹ گئے۔ کئی معنوں میں اصل جیت عام آدمی پارٹی کی ہوئی ہے۔ جن سیٹوں پر زیادہ پولنگ ہوئیں ان میں سے زیادہ تر جگہوں پر عام آدمی پارٹی نے بازی ماری ہے۔ کل 25 سیٹوں پر 65 فیصدی سے زیادہ پولنگ ہوئی جن میں ’آپ‘ کو 13 سیٹیں ،بھاجپا کو 9 سیٹیں اور کانگریس کو3 سیٹیں ملیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے ووٹ فیصد بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ ’آپ‘ کو ہوا نہ کہ بھاجپا کو۔ جیسا کہا جارہا تھا بھاجپا یہ چناؤ جیت سکتی تھی 800 ووٹوں کے فرق نے بی جے پی کو اکثریت سے دور کردیا۔ ذرا سی ہار کے فرق نے بھاجپا کو اقتدار سے کوسوں دور کردیا۔ دراصل بی جے پی کو چار سیٹوں پر 800 سے کم ووٹوں کے فرق سے ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ دہلی کے 70 سیٹوں میں سے 5 سیٹیں ایسی ہیں جہاں ہار جیت کا فرق بہت کم رہا۔ دہلی میں28 سیٹوں پر قبضہ جمانے والی عام آدمی پارٹی 19 سیٹوں پر دوسرے نمبر پر رہی۔ اسی طرح عام آدمی پارٹی 17 سیٹوں پر تیسرے نمبر پر رہی وہیں آپ کی بہ نسبت کانگریس ’آپ ‘کے مقابلے دوسرے نمبر پر بھی نہیں رہ پائی۔ کانگریس 16 سیٹوں پر دوسرے نمبر پر آئی اور اپنا جگہ بچا پائی۔باقی 28 سیٹوں پر بھاجپا دوسرے نمبر پر رہی۔ اگر ہم دہلی میں کانگریسی ممبران پارلیمنٹ کی بات کریں تو دو لوک سبھا حلقوں میں کانگریس پوری طرح صاف ہوگئی۔ نئی دہلی اور مغربی دہلی حلقوں میں تو کانگریس کا کھاتہ تک نہیں کھلا۔ سب سے برا حال مشرقی دہلی میں ایم پی سندیپ دیکشت کے حلقے کا ہے۔ یہ پورا حلقہ کانگریس کا گڑھ مانا جارہا تھا جہاں سے کانگریس نے کافی بھروسے مند امیدواروں کو اتارا تھا۔ یہاں سے اروندر سنگھ لولی، ڈاکٹر اے۔کے والیہ، ڈاکٹر نریندر ناتھ، نصیب سنگھ اور امریش گوتم جیسے لیڈروں کو میدان میں اتار تھا۔ گاندھی نگر میں لولی کو چھوڑ کر سبھی ہار گئے۔ ایسے میں شیلا دیکشت کے بیٹے سندیپ دیکشت کی کارکردگی پر سوال اٹھنافطری ہے وہیں نئی دہلی میں ایم پی اجے ماکن کے حلقے کا حال برا رہا۔ نئی دہلی ایریا میں کانگریس کھاتا بھی نہیں کھول پائی۔ سماجی کارکن انا ہزارے کی تحریک کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا تھی۔یہ ہی استعمال اروند کیجریوال کی ٹیم نے دہلی اسمبلی چناؤ میں کیا۔ ٹوئٹر ہو یا فیس بک یا پھر میسج یا پھر بلاگ ’آپ ‘ کی کامیابی نے سوشل میڈیا نے اہم رول نبھایا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں