لال، نیلی بتی اسٹیٹس سمبل بن گئی ہے!

دیش کو آزاد ہوئے ساڑھے چھ دہائی گزر چکی ہیں لیکن انگریزوں اور سامنت شاہی کی علامت لال بتی کے رتبے کا چلن آج بھی چل رہا ہے۔ لال یا نیلی بتی والی گاڑیوں میں چلنا ایک اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے جو ہمیں سامنتی کلچر کی یاد دلاتا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے سپریم کورٹ نے ایسی حکم دیا ہے جس سے عام شہری کو راحت اور خوشی محسوس ہوگی۔ حالانکہ اس کو لیکر سپریم کورٹ نے ناراضگی جتائی ہے۔ ویسے یہ پہلا موقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ دونوں مرکز اور ریاستی سرکاروں کو لال بتی اور سائرن والی گاڑیوں کے بیجا استعمال پر جھاڑ پلا چکی ہے ۔ اب اس نے ہدایت دی ہے کہ گاڑیوں میں لال بتی کا استعمال آئینی اور اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو ہی کرنا ہوگا۔ ان میں صدر ، وزیر اعظم، کیبنٹ وزیر،کچھ سینئرافسر اور کچھ سینئر جج آتے ہیں۔ اس حکم کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے کہا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاستی سرکاریں اس فہرست میں بدلاؤ نہیں کرسکتیں ۔ یعنی منمانی ڈھنگ سے لال بتی نہیں بانٹ سکتیں۔ اب تک ہوتا رہا ہے کہ ہر ریاستی سرکار اتنی فراغ دلی سے لال بتی بانٹتی تھی کہ تقریباً ہر سیاسی رسوخ والا آدمی چھوٹا بڑا سرکاری افسر لال بتی کی گاڑی میں گھومتا تھا۔ دراصل لال یا نیلی بتی رسوخ اور رتبے کی علامت بن گئی ہے۔ ایسی گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کی وجہ سے عام آدمی کو کبھی کبھی سخت پریشانی جھیلنی پڑتی ہے۔ دہلی میں تو غیر متوقع طور پر تھوڑی سختی کے سبب ڈر ہے ورنہ ریاستی اور ضلع سطح پر کسی بھی پارٹی کا ضلع پردھان یا کسی ضلع کا ڈپٹی کلکٹر بھی لال بتی کی گاڑی کا سائرن بجاتے ہوئے سڑکوں پر دکھائی دے جاتا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی وہی بات کہی ہے جو اس سے پہلے کئی بار کہی جاچکی ہے کہ گاڑی پر لال بتی دراصل ایک اسٹیٹ سمبل بن گئی ہے اور اس کا استعمال لوگ یہ دکھانے کے لئے کرتے ہیں کہ وہ عام آدمی نہیں بلکہ خاص آدمی ہیں۔ عدالت نے یہ ریمارکس دیا ہے کہ لال بتی انگریزوں کے راج کا بوجھ ہے جسے ہم آج تک ڈھو رہے ہیں۔ بھارت میں کرپشن کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی اور خاص آدمی یا وی آئی پی کے درمیان بڑا فرق موجود ہے جو جمہوریت کے بنیادی جذبے کے منافی ہے۔ حقیقت میں اس سسٹم نے آزاد بھارت کے شہریوں کو دو طبقوں میں بانٹ دیا ہے حالانکہ جب سے یہ معاملہ نوٹس میں آیا ہے یہ بحث چل رہی ہے کہ آخر کنہیں وی آئی پی یا اہم شخصیت مانا جائے۔ آئینی طور پر دیکھیں تو یہ دائرہ کافی بڑا ہوجاتا ہے کیونکہ اس میں صدر ،نائب صدر، لوک سبھا سپیکر،پردھان منتری، اپوزیشن لیڈر، کیبنٹ منتری، چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر اور سی اے جی سمیت تمام آئینی اداروں کے سربراہ آجاتے ہیں۔ یہ ہی حال نیلی بتی والی گاڑیوں کا ہے جنہیں پولیس فوج ،فائر سروس سے متعلق گاڑیوں کے لئے مجاز کیا گیا ہے لیکن اس کا بھی بیجا استعمال نہیں روکا جاسکا۔ جس دیش میں ٹریفک قواعد کوتوڑنے والے 100-50روپے دیکر چھوٹ جاتے ہوں وہاں بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ ضروری ہے کہ مرکزی سرکار آئینی ادارے اور تمام ریاستی سرکاریں دیش کے ہر حصے میں اس حکم کی سختی سے تعمیل کرائیں۔ تبھی بھارت کی جمہوریت سے اس سامنتی ملاوٹ کو دور کیا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟