حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھاجپا کی جیت کیامودی فیکٹر کو جاتی ہے؟

چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتیجے آنے کے بعد اب یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا یہ نتائج بی جے پی کے پی ایم اِن ویٹنگ نریندر مودی کی لہر کی وجہ سے آئے ہیں یا پھر اس کا سہرہ ان چار ریاستوں کے موجودہ وزرائے اعلی اور اِن ویٹنگ وزرائے اعلی کو جاتا ہے؟ یہ سوال اس لئے اٹھا ہے کیونکہ نریندر مودی نے ان چار ریاستوں میں زور دار طریقے پر چناؤ مہم میں حصہ لیا لیکن ایکطرفہ جیت تین ریاستوں میں ملی۔ چوتھی ریاست دہلی جہاں مودی نے بہت محنت کی۔ پارٹی اکثریت تک نہیں لاسکی۔ یہ ہی نہیں بلکہ دہلی میں تو پارٹی کا ووٹ فیصد پچھلے اسمبلی چناؤ سے بھی گھٹ گیا؟ سب سے پہلے تو ہمارا خیال ہے کہ لوک سبھا چناؤ نہیں جہاں مودی کی مقبولیت کا امتحان ہونے والا ہے یہ اسمبلی انتخابات ہیں جو ریاستی سرکاروں کی کارگزاری، ساکھ، وزیر اعلی کی مقبولیت ، مقامی اشوز پر لڑا گیا نہ کے نریندر مودی کی شخصیت پر لڑا گیا۔ کانگریس تو یہ کہے گی کہ بی جے پی مودی کی لہر کی وجہ سے نہیں کامیاب ہوئی۔ مدھیہ پردیش کے جوتر ادتیہ سندھیہ نے ریاست میں بی جے پی کی جیت کا سہرہ مودی کے سر باندھنے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جیت کی اصلی وجہ مودی نہیں شیو راج سنگھ چوہان ہیں۔ اسی طرح کی بات دگوجے سنگھ، نتیش کمار نے بھی کہی۔ حیرانی اس بات کی ہے امریکی ماہرین کا بھی ماننا ہے چار ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کے نتائج سے اگلے سال ہونے جارہے عام چناؤ سے پہلے اپوزیشن بی جے پی کو بھروسہ ضرور فراہم کیا ہے لیکن اس میں نہ تو مودی کی لہر کا کوئی اشارہ دکھائی دیا اور نہ ہی اگلے سال ایسی ہی پرفارمینس کی گارنٹی ہے۔ 
ہندوستان کے انتخابات پر قریب سے نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور دہلی جہاں عام آدمی پارٹی نے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا، میں بھاجپا کی اچھی کارکردگی کی ایک واحد وجہ مودی نہیں ہیں۔ ساؤتھ ایشیا میکلارٹی ایسوسی ایسٹ کے ڈائریکٹر رچرڈ ایم روسو نے کہا کہ ان ریاستوں میں بی جے پی ہمیشہ مقابلے میں رہی۔ مرکز کے اقتدار کے سیمی فائنل سمجھے جانے والے ان اسمبلی انتخابات کے نتائج سے بی جے پی کا خیمہ کافی گدگد ہے۔ ووٹروں نے بہتر کام کاج کرنے والی سرکاروں کو نہ تو انعام دینے میں کنجوسی کی اور نہ ہی امیدوں پر کھری نہ اترنے والی پارٹیوں کو سزا دینے میں۔ ووٹروں نے چار ریاستوں میں کانگریس کا صفایا کرکے یہ طے کردیا کہ پارٹی 2014ء کے فائنل دوڑ میں بہت پیچھے چھوٹ گئی ہے۔ اس سیمی فائنل میں بھاجپا کا پرچم لہرانے سے بلا شبہ نریندر مودی کی پی ایم امیدواری کو اور پنکھ لگ گئے ہیں۔اسمبلی چناؤ سے پہلے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو پی ایم امیدوار اعلان کرنے میں پارٹی کے اندر اختلافات تھے۔ اڈوانی خیمے کا کہنا تھا کیونکہ یہ ریاستی چناؤ ہیں اس لئے ان کے نتائج آنے کے بعد ہی مودی کی دعویداری دیش کے سامنے پیش کرنی چاہئے لیکن پارٹی پردھان راجناتھ سنگھ نے کہا نہیں ریاستی اسمبلی چناؤ سے پہلے ہی دعویداری پیش ہوجانی چاہئے۔ اس خیمے کا خیال ہے کہ ان کا فیصلہ صحیح تھا اور مودی کا داؤ اسمبلی چناؤ میں پارٹی کے لئے فائدے مند ثابت ہوا۔
مودی کی قیادت کو مرکز میں رکھ کر حالیہ اسمبلی چناؤ لڑا بھاجپا نے مودی کی امیدواری کا جم کر پروپگنڈہ کیا اور اس طرح اس نے ایک تیر سے دو نشانے لگانے کا کام کیا۔ ایک طرف بھاجپا نے مودی کو پی ایم امیدوار کی شکل میں پیش کیا تو دوسری طرف حکمت عملی کے تحت وزرائے اعلی کے عہدے کے امیدواروں کو مودی کے ساتھ مرکز میں رکھا لہٰذا چاروں ریاستوں میں بھاجپا کو مودی فیکٹر کا فائدہ ملا۔ اسے مہنگائی کا اثر کہیں یا پھر مودی کی لہر، جس سے راہل گاندھی بھی کانگریس کو نہیں بچاپائے اور مودی نے راہل گاندھی کو چناؤ مہم میں بری طرح بے نقاب کردیا۔آج یہ مودی کی وجہ سے ہی کانگریس میں لیڈر شپ کی صلاحیت کو لیکر خود کانگریسی اور ان کی حمایتی پارٹیاں آوازیں اٹھا رہی ہیں۔ حریف پارٹیاں دیش میں مودی کی لہر ماننے سے کترارہی ہیں لیکن اسمبلی چناؤ میں مودی فیکٹر کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کے مقابلے بھاجپا کے امیدواروں کو جیت دلانے میں بھاری پڑا۔ طوفانی چناؤ مہم کے دوران نریندر مودی اور راہل گاندھی نے 11 اسمبلی حلقوں میں ریلیاں کیں۔ یہ ریلیاں بیکانیر، بانسواڑہ، جے پور، اجمیر، دکشن پوری، اندور، شہڈول، رائے پور، بستر، جگدلپور میں ہوئی تھیں۔ ان ریلیوں کا 27 سیٹوں پر سیدھا اثر تھا۔ دونوں پارٹیوں کے اسٹار کمپینروں کو ریلیوں کے اثر والے مقامات سے 9 سیٹیں ملیں۔ بیکانیر سے 2، بانسواڑہ سے1، اجمیر سے2، رائے پور کی3، اندور کی4 ،جگدلپور کی1 ، مندسور کی1 سیٹ پر بھاجپا امیدواروں کا جیتنا مودی فیکٹر کی وجہ رہا۔
اسمبلی چناؤ نتائج نے بی جے پی کا حوصلہ نہیں بڑھایا بلکہ اس نے اعتماد بھی مضبوط کیا۔ دراصل ایک نظریئے سے چناؤ نتائج نے عام چناؤ سے پہلے پارٹی کے اس فیصلے پر مہر لگادی جسے لیکر سب سے زیادہ تنازعہ اور ہائے توبہ مچی تھی۔ چار ریاستیں جو سبھی اہم ہیں، جنتا نے بھاجپا کو شاندار طریقے سے کامیابی دلا کر یہ پیغام دیا ہے کہ نریندر مودی کی لیڈر شپ پائیدار ہے اور انہیں وزیر اعظم امیدوار بنائے جانے کے فیصلے پر بھی مہر لگادی۔اب پارٹی اس مودی لہر کو طوفان میں بدلنے کی کوشش کرے گی۔ بلا شبہ نریندر مودی اور مضبوط ہوکر سامنے آئے ہیں۔ آخر میں نریندر مودی نے کانگریس کے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ سونیا گاندھی کی سربراہی والی پارٹی کو چاروں ریاستوں میں آئی کل سیٹیں بھاجپا کے ذریعے ایک ریاست میں جیتی گئی سیٹوں کے برابر بھی نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھاجپا پارلیمانی بورڈ نے دہلی میں اکثریت نہ ملنے کے سبب مودی کو سامنے نہیں کیا اور مودی نے ٹوئٹر کا سہارا لیا۔ حالانکہ کچھ لوگ بی جے پی میں چاہتے تھے کہ مودی سامنے آکر جیت پر اپنی رائے رکھیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!