جان کیری کا دورہ رسمی اور مایوس کن رہا

امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری بطور سنیٹر کئی مرتبہ بھارت آئے ہیں لیکن امریکہ کے وزیر خارجہ کے طور پر پہلی بار ہندستان آئے ہیں اور وہ بھی اہم ترین سیاسی مذاکرات کے مقصد سے ۔باہمی اور بین القوامی اہمیت کے کئی ایشو پر ہند اور امریکہ متفق نہیں ہیں دونوں ملکوں کے درمیان چوتھے دور کی حکمت عملی بات چیت کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شاید کوئی مثبت بات چیت کی امید کم ہی تھی چونکہ کچھ دنوں سے دونوں ملکوں میں کئی معاملوں پر تلخی دکھائی دے رہی تھی ملکوں کے رشتوں یا آپسی بات چیت کو کافی اہمیت دینی ہوتو اسے حکمت عملی کہنے لا پچھلے کچھ برسوں سے چلن ہو گیا ہے لیکن اگر بات چیت کے اجنڈے پر بنیادی اختلافات پہلے سے ہی دکھائی دے رہے ہوں تو اس پر ہونے والی بات چیت کو فطری طور سے حکمت عملی یا ڈپلومیٹک نہیں کہا جاسکتا جان کیری کا دورہ بھارت سے پہلے ہندستان کو راس نہ آنے والی باتیں شروع ہو گئیں تھیں  ویسے بھی تو بھارت امریکہ کے درمیان کئی ایشو ہیں جن پر غور وخوض کر نا ضروری ہے ۔لیکن اہم ایشو اس وقت امریکہ کے افغانستان پالیسی ہے اس اشو پر جان کیری کے دہلی میں دئے گئے بیانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان سے ہٹنے کا مقصد پورا کرنے کیلئے طالبان سے بات چیت کرنے کو تیار ہوا ہے امریکہ فی الحال ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا جو پاکستان کو اچھا نہ لگے ۔ممکن اس لئے کہ طالبان کی ڈور کچھ حد تک پاکستان کے ہاتھ میں ہے ۔
نتیجے کے طور پر 26/11کے دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے لوگوں کے یاد کرنے کی روایت کیری بھول گئے الٹے یہ صلاح دے ڈالی کہ بھارت اور پاکستان ایک  دوسرے کے ساتھ اپنے رشتوں میں  بہتری لائیں تبھی دنیا ان میں سرمایہ کاری کرے گی نصیحت تو ٹھیک ہے لیکن اس بیان سے اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ اگر پاکستان اپنی سر زمین سے دہشت گردی کی سر گرمیوں کی اجازت دیتا رہے گا  اور ان کے ذریعے اپنے حکمت عملی مقاصد کو پانے کا ارادہ نہیں چھوڑے گا اور افغانستان کو اپنی فوجی پالیسی کی محاذی چوکی بنانے کی کوشش میں لگا رہے گا۔تو بھارت اس میں بھروسے کرکے سرمایہ کاری کیسے کر سکتا ہے؟بات چیت کے بات مشترکہ جاری بیان میں ایران ،شام اور امریکہ کے ذریعہ بڑے دورے میں بھارت کی جاسوسی کرنے جیسے اشو پر ذکر تک نہ ہونا اس بات کا شارہ ہے بھارت اور امریکہ کے درمیان اختلافات ابھی بھی قائم ہے۔صدر براک اوبامہ کے پہلے عہد میں ہند وامریکہ تعلقات میں گرم جوشی دکھائی دیتی تھی لیکن یہ عام خیال رہا ہے کہ ان کی دوسرے عہد کی پاری میں ٹھہراؤ آیا ہے ہو سکتا ہے کہ اس کی ایک وجہ دونوں ملکوں میں معیشت کا سست روی سے گزرنا ہے۔
امریکی تجارت و باہری  سرمایہ کاری ٹھپ پڑی ہوئی ہے امریکہ میں اس کو مضبوط کرنے کیلئے بڑا دباؤ پڑ رہا ہے۔نیوکلائی معاہدے کو آگے بڑھانے کیلئے امریکہ چاہتا ہے بھارت اپنے ایٹمی جواب دہی قانون اور نرم کرے کافی تنازعہ کے بعد اس قانون کو پارلیمنٹ کی منظوری دلا پانے میں کامیاب ہوئی یو پی اے سرکار کیلئے اس میں اور ترمیم کرا پانا آسان نہیں ہوگا دوسری طرف بھارت چاہتا ہے اسے نیوکلائی عدم  توسیع ایجنسی میں جگہ دلانے میںامریکہ مدد کرے لہذا ڈپلومیٹک بات چیت کے نام پر تعلقات اور مضبوط کرنے کی خانہ پوری کے اعلان ہوئے ہیں یہ بات چیت محض بھارتیہ آئی ٹی کمپنیوں کو لے کر اور آؤٹ سورسنگ کیخلاف اوبامہ انتظامیہ کی پالیسی وغیرہ اشو میں دونوں ملکوں کے کارباری رشتوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے ان کے دور ہونے کا کوئی بھروسہ کیری نے نہیں دیا۔امریکہ کے نائب صدر جوئے بائڈن اگلے مہینے بھارت آئیں گے تو ستمبر میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کا دورہ امریکہ تقریباً طے ہو گیا ہے اب دیکھنے کی بات ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ اشو حل ہوپاتے ہیں یا نہیں جان کیری کے اس دورے سے تو کچھ حاصؒ نہیں ہوااور یہ مایوس کن ہی رہا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!