آؤ سب مل کر راحت میں ہاتھ بٹائیں

اتراکھنڈ کے جو حالات اب سامنے آرہے ہیں اس سے صاف ہے کہ دیش قومی آفت کی زد میں آچکا ہے۔جان مال کے بڑھتے نقصان کے اعدادو شمارسنسنی پیدا کرنے والے ہیں مشکل یہ ہے کہ پانچ چھ دن ہونے کے بعد بھی یہ جاننا مشکل ہے کہ تباہی کی حد کیا ہے؟ اتراکھنڈ کی کسی بھی سرکاری ایجنسی کو یہ معلوم نہیں کہ 11759 فٹ کی اونچائی پر کیدارناتھ کے درشن کے لئے کتنے لوگ آئے اور کتنے لاپتہ ہوگئے ہیں اور کتنوں کی موت ہوچکی ہے۔ لگتا یہ ہے کہ دراصل یہاں مسافروں کی صحیح تفصیل رکھنے کا کوئی سسٹم نہیں ہے۔ تباہی والی رات کیدارناتھ اور بدری ناتھ میں قریب30 ہزارلوگ تھے۔ ابھی تک 10 ہزار کے قریب لوگ باہر نکالے گئے ہیں۔ اکیلے کیدارناتھ اور بدری ناتھ میں 20 ہزارسے زیادہ لوگوں کو ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔ اگر ہم پورے اتراکھنڈ کی بات کریں تو اندازہ ہے کہ50422 لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ ردر پریاگ میں 22429 ، چمولی میں 18162 اور اترکاشی میں 98316 لوگ ہیں۔ راحت رسانی میں فوج اور آئی ٹی بی پی کے 6 ہزار جوان لگے ہوئے ہیں۔
ٹی وی اور اخباروں میں ہم نے دیکھا کے کس طرح فوج کے جوانوں نے جان کی بازی لگا کر لوگوں کو بچایا۔ انڈین ایئرفورس نے ہر ہندوستانی کا سر فخر سے اونچا کردیا ہے۔ فوج اگر اتنی سرگرم نہ ہوتی تو پتہ نہیں کتنے اور مرتے۔ بہار کے سابق وزیرصحت اشونی چوبے نے اپنی آنکھوں دیکھی کچھ اس طرح بیان کی ہے۔ میں چارراتوں تک کیدارناتھ میں پھنسا رہا۔ میرے خاندان کے 5 لوگ لاپتہ ہیں۔ میں نے لاشوں پر رات گذاری ہے۔ 1800 سے زیادہ لوگ میرے ساتھ مندر میں تھے۔ کئی تو میری آنکھوں کے سامنے مر گئے۔ 
مندر کے اندر لاشیں تیر رہی تھیں۔ میں نے زندگی میں ایسی قدرتی آفت نہیں دیکھی۔ 15-20 ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی ہیں۔ دہلی کے باشندے شکنتلا گوسائی نے اپنی آپ بیتی اس طرح سنائی جس سے پتہ چلتا ہے کہ منظر کتنا خوفناک رہا ہوگا۔ہم 16 جون کو کیدارناتھ درشن کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ بیچ میں موسم خراب ہوا تو رام باڑہ میں ہم رک گئے۔ بارش تیز ہورہی تھی، مارکیٹ میں چہل پہل تھی،لوگ چائے کی چسکیاں لے رہے تھے، اچانک پہاڑ ہلنے لگا۔ ہم نے سوچا نیچے والا گیسٹ ہاؤس، جس میں قریب500 لوگ تھے دھماکے کے ساتھ ندی میں سما گئے اور قدرتی آفات کے وقت رام باڑہ میں قریب تین ہزارلوگ تھے۔پہاڑ کے نقشے سے غائب ہوچکے رام باڑہ سے لوٹی شکنتلا آگے کہتی ہیں کے اس کے دونوں پیر سوجے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا جب جان بچانے کو بھاگے قریب 100 لوگ تھے۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو ہم پانچ عورتوں کے ساتھ کل 3 لوگ بچے تھے۔ 
تیز بارش سے بچنے کے لئے انہوں نے پڑی لاشوں کی پولیتھین اور گھوڑوں کے کپڑے اپنے اوپر ڈھکے۔ چار دن تک بغیر کھائے، کسی جگہ پہنچے جہاں سے فوج کے ہیلی کاپٹر نے انہیں پتہ لگا لیا ۔انہوں نے بتایا بھگدڑ کے وقت جو بھی نیچے گر گیا وہ بچ نہیں پایا۔ رام باڑہ میں 50 نہیں بلکہ3 ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی ہیں۔ وہاں ہر کوئی اپنی زندگی بچانے کے لئے افراتفری کا شکار تھا۔ فوج کے لوگ اپنی جان بچانے کے لئے ہدایت دے رہے تھے۔
قدرتی آفت کے سبب اترکاشی میں نہ بجلی اور نہ پانی، بیمار لوگوں کے علاج کے لئے نہ کوئی ڈاکٹر ہے نہ دوائیاں۔مسافروں نے سرکار کو جم کر کوسا ان کا کہنا تھا لگتا ہے گنگوتری دھام میں سرکاری مشینری نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر ہم سرکاری افسروں کی بات کریں تو دیکھئے ان کا رویہ اپنوں کو کھو چکے ہزاروں پست حال بیمار تیرتھ یاتری مدد کی اپیل کررہے تھے۔ سبھی چاہتے تھے کہ انہیں پہلے نکالا جائے۔ اگر راجستھان کے تیرتھ یاتریوں کی مانیں تو موقع پر موجود پولیس اور انتظامی افسروں کا برتاؤ شرمناک رہا۔ سب سے پہلے وہی ہیلی کاپٹر سے نکل بھاگے۔ یہ داستاں بتائی کیدارناتھ سے بچ کر ہری دوار پہنچے راجستھان کے تیرتھ یاتریوں کے ایک گروپ نے۔ اور تو اور سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو پھٹکار لگائی۔ 
عدالت نے راحت کے کام میں تیزی لانے کی سخت ہدایت دی ہے۔ انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کے ہمارے کچھ بھائی لاشوں کو بھی پیسوں کی خاطرنہیں چھوڑتے۔ کیدار وادی کی تباہی نے پورے دیش کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن کیدار دھام میں تپسیا کے نام پر رہ رہے کچھ چور اچکے سادھوؤں نے دھرم کے نام پر ایسی کرتوت کی ہے جسے سن کر ہر کوئی شرمندہ ہوگا۔ یہ حرکت ایسی ہے جو سادھوؤں نے بھگوان شیو کی تپسیا کے نام پر موسم گرما میں چھ مہینے تک کیدارناتھ میں تپسیا میں مگن رہنے کا ڈھونگ کررہے ہیں لیکن قدرتی آفت کے وقت ایسا کام کیا جو کسی نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ ٹریجڈی کی رات سادھوؤں نے تیرتھ یاتریوں کو اس قدر لوٹا اورپولیس نے جب ان کی تلاشی لی تو لاشوں سے اتارے زیور اور نقدی ان کے پاس سے ملے۔ ان کے پاس 3 کروڑ روپے نقدی ملی۔ ابھی جانچ جاری ہے۔ سرکار تو اپنی سطح پر کام کررہی ہے ہم سبھی کو اپنے اپنے ڈھنگ سے ہاتھ بٹانا ہوگا۔ خاص کر وزیراعلی کے رویئے سے بھی لوگوں میں غصہ اور مایوسی ہے۔ کام اتنا بڑا ہے کہ سبھی لوگوں کو وہاں جاکر پھنسے خاندانوں کی مدد کرنی ہوگی۔
ہم بھی اس جنگ میں کود پڑے ہیں۔ ہماری ایک تنظیم شری دیو ستھان سمیتی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم کم سے کم 500 کنبوں کو راحت سامان پہنچائیں گے۔ ہر خاندان کو ایک پیکٹ دیا جائے گا جس میں 1 کلو آٹا،1 کلو چاول،1 کلو دال اور1 کلو چینی اور مسالے کا پیکٹ ہوگا۔ ہماری کوشش ہے کہ ہماری ٹیم خود جاکر متاثرہ کنبوں کو یہ سامان پہنچائے گی۔ بہت چھوٹی سی کوشش ہے لیکن کوئی تو شروع کرے۔ اور اگر سبھی بھائی ایسا کریں تو کچھ تباہ ہوئے کنبوں کی مدد ہوگی۔ آپ بھی ہمارے ساتھ ہاتھ بٹائیں۔ ویرارجن، دینک پرتاپ، ساندھیہ ویر ارجن کے اس نیک کام میں پیسہ یا سامان دینے کی کرپا کریں۔ اوم نمہ شوائے، ہرہر مہادیو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!