خراب موسم اور وبا کی دوہری چنوتی!

اتراکھنڈ میں قدرت کا قہر ابھی رکا نہیں۔ حادثے کو8 دن سے زیادہ گذر چکے ہیں لیکن ابھی بھی وہاں لوگ مصیبت میں پھنسے ہیں۔ ان کی تعداد15 ہزار سے زائد ہے۔ شردھالوؤں اپنی جان کی حفاظت کے لئے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ موسم پھر خراب ہوگیا ہے اور کئی حصوں میں پھر بارش شروع ہوگئی ہے۔ فوج اور سکیورٹی فورس کے جوانوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر ہزاروں بھگتوں کو بچایا ہے۔ بیشک خراب موسم کی وجہ سے ہوائی راحت رسانی و بچاؤ کا کام رک گیا ہے کیونکہ ہیلی کاپٹر ایسے موسم میں اڑان نہیں بھر سکتے لیکن زمینی بچاؤ مہم جاری ہے۔ کیدار وادی میں بچاؤ کے کام میں لگے 258 میں سے 150 پولیس والے لا پتہ ہیں جن میں سے 15 خاتون کانسٹیبل بھی ہیں۔ راحتی ٹیموں میں شامل کئی پولیس والے بیمار بھی ہوگئے ہیں۔ اتراکھنڈ میں اب تک سب سے بڑی راحت رسانی مہم آپریشن سرچ چل رہا ہے۔ ایئر فورس نے کہا ہے کہ پھنسے لوگوں کو نکالنے میں کم سے کم ایک ہفتہ اور لگ جائے گا، وہ بھی جب موسم ساتھ دے۔ یہ ہمارے دیش کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ اتنی بڑی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لئے سرکاری ایجنسیوں میں اصلی تال میل کی کمی ہے۔ دیش تو متحد ہوگیا ہے اورمدد کے لئے ہاتھ اٹھ رہے ہیں لیکن حالات کی بدقسمتی دیکھئے مرکزی حکومت اور ریاستی سرکار کے درمیان تال میل ہی گڑ بڑ ہورہا ہے۔ ریاستی حکومت کی غیر دور اندیشی اور لاپروائی تو پہلے ہی سامنے آچکی ہے۔ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے بھی تسلیم کیا ہے اتراکھنڈ میں راحت کے کام میں لگی سرکاری ایجنسیوں میں تال میل کی کمی ہے۔ اتراکھنڈ میں باڑ متاثرین کی مدد کے لئے جہاں سارا دیش کوشش میں لگا ہوا ہے اور ان کی حفاظت کے لئے دعائیں کررہے ہیں ایسے میں قدرتی آفت کی مار جھیل رہے لوگوں کے تئیں لوٹ کھسوٹ کی شرمناک خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ سیلاب میں پھنسے لوگوں کو ایک پراٹھے کے لئے250 روپے اور چپس کے چھوٹے پیکٹ کے لئے 100 روپے دینے پڑ رہے ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور پہلے جہاں جانے کے لئے1 ہزار روپے لیاکرتے تھے اب وہ3 سے4 ہزار روپے لے رہے ہیں۔ 200 روپے کا پراٹھا اور 200 روپے کی پانی کی بوتل بک رہی ہے وہیں لاشوں سے زیور، نقدی کی لوٹ پاٹ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ کیدار وادی میں 16-17 جون کو برسے آسمانے قہر میں کیدارناتھ دھام، گوری مندر اور قریبی مندروں میں پوجا ارچنا کرانے والے پجاریوں اور منی گاؤں گرام سبھا کے 42 پجاری دیگر کل51 مرد لٹیرے بن چکے ہیں۔ اس گرام سبھا میں بچوں کو چھوڑ کر مردوں کی تعداد51 بتائی گئی ہے۔ ان دونوں گاؤں میں مرد نہیں بچے ہیں اور اتنی عورتیں بیوہ کی زندگی جینے اور خاندان کا گذارہ کیسے کریں ،کی مشکلات جھیلنے کو مجبور ہیں۔ ان خاندانوں کی پرورش مندروں کی سیوا سے چلتی ہے یہ سیوا محض 6 مہینے کی کرپاتے ہیں کیونکہ برفباری کے سبب وہاں کے مندر 6 مہینے کے لئے بند رہتے ہیں۔ کچھ سادھوؤں نے کیدار علاقے سے لوٹنے سے انکارکردیا تھا۔ آئی ٹی بی پی کے ڈی آئی جی نے بتایا کے 15 سے 20 سادھوؤں نے وہاں لوٹنے سے منع کردیا اور کہا کے بھلے ہی ہم مہادیو کی سیوا میں مرجائیں لیکن یہاں سے ہٹیں گے نہیں لیکن ہم نے بتایا کے لاشوں کے درمیان رہنا ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ اس سے بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ بڑی مشکل سے وہ مانے۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ کیدارناتھ مندر میں کتنی تباہی ہوئی ہے۔ مندر کے گربھ گرہ میں اور شیولنک ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ 
کیدارناتھ مندرکے بڑے تیرتھ پروہت دنیش باگڑی نے بتایا کہ احاطے میں ملبہ کافی مقدار میں بھرا پڑا ہے۔گربھ گرہ میں اب تک ملبے کا انبارلگا ہوا ہے۔ بھگوان شیو کے مصنوعی جوترلنک کا صرف کچھ حصہ ہی دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا مندر کمپلیکس میں 6 فٹ سے زیادہ ملبے کے نیچے کافی تعداد میں لاشیں دبی ہوئی ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کے کیا عارضی طور پر پوجا کی جگہ بدلنے پر غور ہورہا ہے، تو انہوں نے کہا سرکار کے ذریعے مقرر چیف پجاری کے حوالے سے اس پر غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ لیا جائے گا۔ اس بارے میں ابھی صاف طور پرمعلومات نہیں ہیں۔ پہلا کام مندر کمپلیکس تک پہنچنا ہے اور اسے بحال کرنا پہلا چیلنج ہے اور یہ بہت بڑا کام ہے۔ ادھر کیدارناتھ ٹریجڈی کے بعد مندر کے راول (بڑے پجاری) بھیم راؤ لنگم اروی مٹھ پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے کیدارناتھ مندر کا ہوائی سروے سے جائزہ بھی لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ حالات میں پوجا گپت کاشی کے وشواناتھ مندر میں ہورہی ہے۔ اکھی مٹھ اونکاریشور مندر ،پنتھ کیداروں کا گٹھی استھل ہے اس لئے پوجا اکھی مٹھ میں شروع کرائے جانے پر غور ہورہا ہے۔ کیدارناتھ مندر میں شدھی کرن کے بعد ہی پوجا کی جائے گی۔ قدرت کے قہر کے بعد اب دوسرا خطرہ حادثے والے علاقوں میں وبا کی شکل میں منڈرانے لگا ہے۔ لاشیں سڑنے لگی ہیں جس وجہ سے ان سے اٹھ رہی بدبو سے انفکشن پھیلنے کا خطرہ پیدا ہونے لگا ہے۔ راحت بچاؤ کے لئے ہندوستانی فوج کے جانباز دیو دوت بن کر آئے ہیں۔ 
آخر میں قارئین کو کیدارناتھ دھام کی اہمیت بتا دیں۔ مندر کیسے وجود میںآیا؟ میں اس بارے میں تفصیل بتاؤں ۔ کیدارناتھ کی تعمیر پانڈوؤ یا ان کے آباؤ اجداد نے کرائی تھی۔ جیرنودھار آدی گورو شنکر آچاریہ نے کرایا۔ مہابھارت کی جنگ میں کامیاب ہونے پر پانڈؤ لوٹ مار اور قتل غارت گری سے نجات پانا چاہتے تھے اس کے لئے آشیرواد حاصل کرنا چاہتے تھے اور درشن کے لئے کیدار پہاڑی پر پہنچ گئے لیکن جب تک انہوں نے بیل کی شکل اختیار کرلی اور وہاں انہیں دیگر جانوروں کا ساتھ مل گیا لیکن پانڈوؤں کو شبہ ہوا۔ بھیم نے اپنی وسیع شکل اختیار کر پہاڑوں پر اپنے پیر پھیلا دئے باقی جانور تو نکل گئے لیکن میملا کیسے نکل پاتا۔ بھیم بھی سمجھ گئے اور میملا زمین کے اندر جانے لگااور بھگتی اور پختہ عزم کو دیکھ کر میملے نے انہیں درشن دے کر پاپ سے نجات دے دی۔ تب سے لیکر آج تک بیل کی پیٹھ پر مورتی پنڈ کی شکل میں ہے۔ کیدارناتھ مندر کے گربھ گرہ میں اس کو پوجا جاتا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے جب بھگوان شنکر بیل کی شکل میں سامنے آئے تو ان کے دھڑ کے اوپر کا حصہ کاٹھمنڈو میں ظاہر ہوا۔ وہاں یہ پشوپتی ناتھ کی شکل میں پوجا جاتا ہے۔ میری بھجائیں سنگھ ناتھ میں بڑے رودرناتھ میں نابھی، ملیشور میں کلپیشور میں پرکٹ ہوئیں اس لئے ان دھاموں سمیت کیدارناتھ کو پنچ کیدار بھی کہا جاتا ہے۔ ہر ہر مہادیو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!