کیجریوال نے نتن گڈکری کو کٹہرے میں کھڑا کیا
حکمراں کانگریس اور وزراء و سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کونشانہ بنانے کے بعد اب بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا کے پردھان نتن گڈکری پر حملہ کرتے ہوئے اروند کیجریوال نے خاص طور سے تین چار الزام لگائے۔ ان میں گڈکری نے کسانوں کی 100 ایکڑ سے زیادہ زمین ذاتی فائدے کے لئے ہتیالینے کا الزام بھی شامل ہے۔ گڈکری کے پاس پانچ بجلی گھر، تین چینی ملیں سمیت کوئلہ ،کھاد، سپر بازارجیسے کئی کاروبار ہیں ۔ اپنے کاروباری مفادات کے لئے وہ بھاجپا کا استعمال کررہے ہیں۔ گڈکری نے ٹھیکیداروں کی غلط طریقے سے مدد کے لئے اجیت پوار سے لیکر مرکزی وزیر پون کمار بنسل تک سے سفارش کروائی۔ اجیت پوار سے سانٹھ گانٹھ کرکے 100 ایکڑ زمین اپنے ٹرسٹ کے نام کروالی۔ بیشک شری نتن گڈکری نے کیجریوال کے الزامات کا نکتہ بہ نکتہ جواب دیا اور بعد میں سشما سوراج، ارون جیٹلی نے کیجریوال کے الزامات کی ہوا نکالنے کی کوشش کی لیکن اس سے گڈکری پاک ثابت نہیں ہوتے۔ گڈکری بھی مانتے ہیں کہ انہیں100 ایکڑ زمین اجیت پوار نے دی ہے۔ یہ زمین کیسی ہے، کتنے برسوں کے لئے پٹے پر ہے ،اس میں کیا پیداوار ہورہی ہے ، اس کا کیا ہورہا ہے ،وہ سب اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ این سی پی لیڈر اجیت پوار نے سارے قانون کو بالائے طاق رکھ کر گڈکری کی تنظیم کو زمین دی۔ کیجریوال نے دراصل بھاجپا کے ساتھ ساتھ کانگریس کو بھی کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے کیونکہ جو الزام گڈکری پر فائدہ لینے کیلئے ہیں وہی الزام کانگریس او اس کی ساتھی جماعت این سی پی پر فائدہ پہنچانے کیلئے ہیں۔ حالانکہ کانگریس کا کہنا ہے کہ اجیت پوار اس معاملے میں پہلے ہی اپنا استعفیٰ دے چکے ہیں اور اب باری نتن گڈکری کی ہونی چاہئے۔ کل تک جس کیجریوال کے سہارے بھاجپا کانگریس کو کرپشن کے نام پر ناک میں دم کرارہی تھی آج اسی کیجریوال نے بھاجپا کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ ان کے ذریعے گڈکری پر عائد الزامات سے جنتا میں یہ پیغام جاتا ہے کہ دونوں قومی پارٹیاں کرپشن کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کررہی ہیں۔ کیجریوال نے دونوں پارٹیوں کو جس طرح کرپشن کے اشو پر جنتا کی عدالت میں کھڑا کیا ہے اس سے یہ بات تو صاف ہوگئی ہے کہیں نہ کہیں دونوں قومی پارٹیوں میں کرپشن کو لیکر گٹھ جوڑ صاف دکھائی پڑتا ہے۔ اگر اب جانچ گڈکری کی ہوتی ہے تو کانگریس اور اس کی ساتھی این سی پی بھی اس کے دائرے سے اچھوتے نہیں رہیں گے۔ ایک اور بات کیجریوال کچھ حد تک ثابت کرنے میں کامیاب رہے وہ یہ ہے کہ نتن گڈکری اگر ایک صنعت کار کے زمرے میں نہیں بھی آتے تو ایک بڑے بزنس مین ضرورت ہیں، جن کی اپنی چینی ملیں ہیں، بجلی گھر ہیں، کئی بڑے دھندے ہیں اور ایک بزنس مین کا ذاتی مفاد کبھی کبھی پارٹی کے مفادات سے بھی سمجھوتہ کرنے پر بھی مجبور کردیتا ہے۔ اروند کیجریوال کے الزام پوری طرح صحیح ہیں یہ کہنا مشکل ہے لیکن گڈکری پر عائد الزام جس طریقے سے لگائے گئے ہیں اس سے عام جنتا کے دل میں شبہ پیدا ہونا فطری ہے۔ کچھ تو گڑ بڑ ہے ۔عام جنتا کو کچھ ایسا ہی شبہ رابرٹ واڈرا اور سلمان خورشید کے معاملوں کو لیکر بھی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس شبے کا ازالہ کیسے ہو؟جانچ سے ہو، مشکل یہ ہے کہ الزامات کے گھیرے میں کھڑے لوگ محض صفائی پیش کر اور کچھ خود ساختہ دستاویزات پیش کرکے اپنے آپ کو پاک صاف قرار دے رہے ہیں۔ الزامات کو سرے سے مستردکرنے اور الزام لگانے والوں کی نیت پر سوال اٹھانے یا پھر سلمان خورشید کی طرح دھمکانے سے تو ’چور کی داڑھی میں تنکے والی کہاوت ہی صادق آرہی ہے۔ بھاجپا نیتا بیشک ہر ممکن صفائی دے رہے ہوں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صدر نتن گڈکری کی ساکھ کو بٹہ لگا ہے۔ بھاجپا اب کانگریسی لیڈروں پر اس طرح کے الزام لگاکر ان کے استعفے کی مانگ کرتی ہے تو آج اگر کانگریس گڈکری کے استعفے کی مانگ کرتی ہے تو کیا غلط ہوگا؟ ایک اور بات کیجریوال کے الزامات سے بھاجپا کے اندر جاری وجود کی لڑائی کو بھی ہوا ملے گی۔ ویسے تو نتن گڈکری کو بھاجپا صدر کی دوسری میعاد ملنا تقریباً طے ہوچکا ہے۔ لیکن پارٹی میں ایک ایسا بھی طبقہ ہے جو نہیں چاہتا کہ گڈکری دوبار پارٹی صدربنیں۔ کیجریوال کے الزامات کے خلاف بھلے ہی پوری پارٹی گڈکری کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہوں لیکن اندر خانے بھاجپا کا ایک طبقہ خوش ہے ۔ بھاجنا سنگھ کے آگے مجبور ہے لیکن اب ممکن ہے کہ بھاجپا کے اندر گڈکری کو دوبارہ میعاد ملنے پر کھل کر مخالفت شروع ہوجائے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں