ہندوؤں کے بعد اب شیعوں کو کشمیر سے نکالنے کی سازش
جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن کے دونوں طرف چین اور پاکستان کے ذریعے نہ صرف اس سابقہ رجواڑے کی آبادی کی شکل بدلی ہے بلکہ اس کے مذہبی اور سماجی اور سیاسی سائز کو بھی بدلنے کی سازش تشویش کا باعث ہے۔ 80 کی دہائی میں وادی کشمیر سے ہندوؤں کو بھاگنے کے لئے مجبور کرنے کے بعد کنٹرول لائن کے دونوں جانب آباد شیعوں کو بھی اب نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس سازش کے ذریعے بنیادی جمہوری سسٹم کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں شیعوں اور بھارت کی جانب سے کشمیر میں پنچایتی راج کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ نامعلوم بندوقچیوں کے ذریعے سرپنچوں کو استعفیٰ دینے کی دھمکیوں کے چلتے قریب ایک درجن سے زائد سرپنچ مارے جاچکے ہیں اور قریب500 نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی فوج شیعہ آبادی کی اکثریت کو ختم کررہی ہے کیونکہ وہ لوگ قراقرم ہائی وے پر واقع اہمیت کے حامل گلگت۔ بلتستان علاقے میں انجینئروں اور مزدوروں کے بھیس میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے لوگوں کی موجودگی کی مخالفت کررہے ہیں۔ سال کی ابتدا سے پڑوس کے خیبرپختونخواہ سے فوجیوں کو یہاں لاکر بسایا جارہا ہے جو مغربی جموں و کشمیر کے کئی حصوں میں سوچی سمجھی سازش کے تحت شیعہ لوگوں کا قتل کررہے ہیں۔ ادھر بھارت میں ایک خاموش انقلاب کی ہوا چل رہی ہے۔ پچھلے سال پنچایتی راج چناؤ کے ذریعے قائم جمہوری نظام کو کمزور کرنے کے ارادے سے لشکر طیبہ حرکت المجاہدین سے وابستہ پاک حمایتی آتنک وادی پرمکھ ، سرپنچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اور پوسٹروں کے ذریعے پنچوں کو مسجدوں میں نماز جمعہ کے دوران یا اخباروں میں بیانات کے ذریعے سے استعفوں کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس سب کا مقصد جمہوری نظام کو نقصان پہنچانا ہے جس نے ریاست میں جڑیں جما لی ہیں اور آتنک وادیوں کو عوامی نمائندوں کی شکل میں بحال ہونے میں مدد کرنا ہے یہ پاکستان کی اس سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں تربیت یافتہ آتنک وادیوں کو عوامی لیڈروں کی شکل میں پیش کرنا ہے۔ بھلے ہی عام چناؤ اور پنچایتی چناؤ میں لوگوں نے انہیں نامنظور کیوں نہ کردیا ہو۔ چناؤ میں ریاست کے لوگوں کے بھاری تعداد میں حصہ لینے سے اس ضمنی حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کسی بھی آتنک وادی گروپ کی دھمکیوں کی حقیقت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی آتنک گروپ نے سرپنچوں کے قتل ذمہ داری نہیں لی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس طرح کے کام کروانے والوں کی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔ جمہوری عمل میں لوگوں کی وسیع ساجھیداری اس بات سے ظاہر ہوتی تھی کہ 2011 ء کے چناؤ کے آخری نتیجوں کے مطابق جموں و کشمیروادی اور لداخ سمیت پورے جموں و کشمیر میں پنچایتوں کے لئے 40 ہزار سے زیادہ مقامی نمائندوں کو چنا گیا ہے۔ وزیر اعلی عمر عبداللہ نے اس سال کے آخر تک بلاک اور ضلع سطح کے دوسرے اور تیسرے چناؤ بھی کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ سرحد پار بیٹھے آتنکیوں کے آقاؤں کو یہ قطعی منظور نہیں ہے اس لئے وہ کنٹرول لائن کے دونوں جانب ہر ممکن رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں