دہلی میں سرکار کیخلاف بڑھتا عوام کا غصہ


دہلی ہندوستانی کی راجدھانی ہے اور دہلی میں جو حالات چل رہے ہیں اس سے صاف ہواشارہ ملتا ہے کہ انا ہزارے، بابا رام دیو، اروند کیجریوال بھاجپا کی مسلسل جاری تحریکوں سے دہلی میں کانگریس کے خلاف منفی ہوا کا چلنا فطری ہی ہے۔ دو دن پہلے ہوئے دو واقعات سے کانگریس لیڈر شپ کو ضرور فکر مند ہونا چاہئے۔ دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت کی ریلی میں چپل اور انڈے پھینکے جانے سے جنتا کی ناراضگی کا پتہ چلتا ہے۔ مہنگائی، گھوٹالوں اور بجلی پانی کے بلوں کے سبب لوگوں کا غصہ اب سامنے آنے لگا ہے یا پھر انڈیا اگینسٹ کرپشن کے لیڈر اروند کیجریوال کی تحریک کا اثر ہوسکتا ہے لیکن جس طرح دہلی کے ایک بڑے لیڈر کو عوامی ناراضگی سے بچ کر یا تقریر پوری کئے بغیر ہی لوٹنا پڑا اسے دہلی کی سیاست میں ایک چیلنج ضرور مانا جارہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دہلی کے اقتدار پر پچھلے14 سال سے قابض اور دہلی کو پیرس بنانے کا دعوی کرنے والی وزیر اعلی شیلا دیکشت کے سامنے شاید یہ پہلا تجربہ رہا ہوگا۔ اس سے پہلے تو شیلا جی جہاں گئیں وہاں ان کی حمایت میں نعرے لگتے سنے ہوں گے۔ یہ بھی تعجب کی بات کہ جس مصطفی آباد اور نند نگری کے لوگوں کے غصہ کا سامنا شیلا جی کو کرنا پڑا وہ کانگریس کے ممبر اسمبلی ویر سنگھ چھگن اور حسن احمد کے حلقے ہیں اور وہاں سے ایم پی ہیں جے پرکاش اگروال۔ یہ ایک دہلی کا اوپن کرکٹ ہے کہ پردیش صدر اور ممبر پارلیمنٹ جے پرکاش اگروال اور شیلا دیکشت میں پٹتی نہیں ہے۔ اعلی کمان کی ساری کوششوں کے باوجود دونوں میں دوریاں کم نہیں ہوئیں۔ پچھلے ایک ہفتے میں شیلا دیکشت کے ساتھ جو واقعات ہوئے ہیں انہیں دہلی کی سیاست میں احتجاج کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مصطفی آباد کے واقعے کے بعد روہتاش نگر میں جے پرکاش اگروال اور حلقے کے ممبر اسمبلی ونے شرماکے خلاف احتجاج میں کانگریسیوں نے ڈھول بجائے۔ دہلی کانگریس آج بری طرح بٹی ہوئی ہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھلوانے سے پیچھے نہیں رہتی۔ بجلی کے تیز دوڑتے میٹر، پانی کا نجی کرن، بڑھتی مہنگائی سے پریشان عوام کے سامنے اب کھل کر سڑکوں پر اترنا نیتاؤں کی ریلیوں میں احتجاج کرنا ان کی ناراضگی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب سرکار اور نیتا عوام کی جائز مانگوں کو مسترد کردیتے ہیں تو وہ سڑکوں پر آجاتی ہے۔ ایک کے بعد ایک گھوٹالوں کا پردہ فاش ہونے سے جنتا کو یہ یقین ہوتا جارہا ہے کہ یہ یوپی اے سرکار مرکز میں ہو یا ریاست میں ان گھوٹالوں میں کچھ کرنے والی نہیں ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سی اے جی کی رپورٹ ،شنگلو کمیٹی کی رپورٹ دہلی کے لوک آیکت کے ذریعے دہلی کے وزرا کے خلاف اٹھائی گئی انگلیوں کا یہ حشر نہ ہوتا جو ہورہا ہے۔ آخر کیوں نہیں ان اشوز پر جانچ کرائی گئی اور قصورواروں پر کارروائی نہیں کی گئی؟کانگریس کے تئیں ووٹروں کی ناراضگی میونسپل چناؤ میں دیکھ چکی ہے لیکن پھر بھی کانگریس و سرکار سنبھل نہیں رہی ہے۔ جنتا کو فار گرانٹڈ (سرسری طور پر )لینا بھاری بھول ہوسکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!