سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ممبئی میںآگ بھڑکائی گئی
کیا ممبئی میں پچھلے سنیچر کو بھڑکا تشدد ایک منظم واردات تھی؟ اس دن آسام اور میانمار میں مسلمانوں پر ہوئے حملوں کے خلاف آزاد میدان میں ایک احتجاجی ریلی کا انعقادہوا تھا۔ اس کو انعقاد کرنے والی تنظیم رضا اکاڈمی اور مدینہۃ الرحیم فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔ ممبئی پولیس اس ریلی میں ہوئے تشدد کو منظم مان رہی ہے۔ پولیس کی گرفت میں آئے 23 فسادیوں سمیت منتظمین کے خلاف دفعہ302 کے تحت قتل کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ ان عناصر پر دیگر دفعات میں بھی مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ کرائم برانچ کے جوائنٹ کمشنر ہیمانشو رائے نے بتایا پولیس ایکٹ کے تحت تشدد اور آتشزدگی سے ہوئے نقصان کا ہرجانا بھی رضا اکاڈمی سے ہی وصولہ جائے گا۔ تشدد بھڑکانے والوں اور اس کے اسباب کا پتہ لگانے کے لئے کرائم برانچ کی 12 نکاتی خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ آزاد میدان میں آتشزدگی اور بھڑکیلی تقریروں کے ویڈیو فوٹیج کا مطالع کیا جارہا ہے۔ سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے باقی فسادیوں کو حراست میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پولیس نے گرفتار بلوائیوں کومیٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا ہے جہاں ان سبھی کو19 اگست تک ریمانڈ میں بھیج دیا گیا ہے۔ ریمانڈ کے لئے عدالت میں دی گئی درخواست میں پولیس نے تشدد کو طے شدہ قراردیا ہے۔ ہیمانشو رائے کے مطابق جس طریقے سے آزاد میدان ریلی میں پہنچنے کے لئے فیس بک اور ایس ایم ایس کے ذریعے پیغامات بھیجے گئے اس سے صاف ہے تشدد کا پلان پہلے ہی سے تھا۔ فیس بک پر کئی دنوں سے مسلمانوں پر آسام اورمیانمار میں ہوئی ذیادتیوں کا پروپگنڈہ ہورہا تھا اور انہیں اکسانے کی کوششیں ہورہی تھیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرینٹ میڈیا پر بھی الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ جان بوجھ کر ان ذیادتیوں کی خبریں نہیں دے رہے ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے صاف ہے کئی مظاہرین ڈنڈوں اور لوہے کی چھڑوں سے مسلح تھے اور گاڑیاں پھونکنے کے لئے پیٹرول کے ڈبے لیکر آئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا فیس بک ، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس پیغام بھیجنے والوں کا پتہ لگانے کے لئے سائبر کرائم سیل کی مدد لی جائے گی۔ خیال رہے کہ رضا اکاڈمی اور سنی جماعت العلماء سمیت24 تنظیموں کے ذریعے منعقدہ ریلی کے دوران ہوئے تشدد میں دو لوگوں کی موت ہوگئی۔ 45 پولیس ملازمین سمیت100 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ کسی حساس اشو کو غیر ضروری طول دینے کے معاملے کا خطرناک نتیجہ ہوتا ہے۔ ممبئی میں ہوا تشدد اسی کی ایک مثال ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ممبئی میں آسام تشدد کے خلاف دھرنے کے منتظمین نے یہ نتیجہ کیسے نکال لیا کہ آسام میں صرف مسلم فرقے کے لوگ ہی نشانہ بنے؟ یہ جو تصور پیش کیا گیا ہے کہ آسام میں صرف مسلمان فرقے کو ہی نشانہ بنا یا گیا اور راحت رسانی اور باز آبادکاری میں ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے اس کے لئے ایک حد تک آسام سرکار اور مرکزی حکومت بھی ذمہ دار ہے جو اس بارے میں کچھ واضح نہیں کرسکی کہ تشدد کیوں بھڑکا اور اسکے لئے کون ذمہ دار تھا، اصلی اشو کیا تھا، کتنے لوگ متاثر ہوئے ، کتنے لوگوں کو گھر چھوڑنا پڑا اور راحت رسانی اور بازآبادکاری کی کیا پوزیشن ہے؟ بدقسمتی سے کچھ غیر سماجی عناصر اور سیاستدانوں نے اپنی روٹیاں سینکنے کے لئے دیش میں عدم استحکام اور بدامنی پیدا کرنے کے لئے یہ پروپگنڈہ کیا۔ آسام میں مسلم فرقہ کے ساتھ مظالم کیا گیا اور یہ ہی نہیں ان کا پارلیمنٹ میں بھی کچھ ممبران پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آسام میں مسلم فرقے کو نہ صرف نشانہ بنایا گیا بلکہ راحت کیمپوں میں ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ تشویش کا باعث ہے کہ سیاستدانوں کا ایک طبقہ ابھی بھی یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ آسام میں جو تشدد بھڑکا اس کے پیچھے بنگلہ دیش سے ہونے والی دراندازی کا کوئی رول نہیں ہے۔ ایک طرح سے انہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی کہ بنگلہ دیش سے آئے مسلمان ناجائز طریقے سے گھس پیٹھ کررہے ہیں۔ ان کے لئے بس ان کا مسلم ہونا کافی ہے۔ بھلے ہی وہ غیر ملکی ہوں۔ دکھ تو اس بات کا بھی ہے کہ کئی دنوں سے یہ سازش جاری تھی اور ممبئی پولیس اس وقت اسے روکنے میں ناکام رہی۔ آخر یہ اندازہ کیوں نہیں لگایا گیا کہ ممبئی میں عام سے زیادہ لوگ سازو سامان کے ساتھ اکٹھا ہورہے ہیں اور ان کے ارادے صحیح نہیں ہیں؟ یہ اچھی بات ہے کہ دھرنے کا انعقاد کرنے والی تنظیموں نے اپنی غلطی قبول کرلی ہے اور معافی مانگی ہے لیکن انہیں اس پر غور فکر کرنا چاہئے کہ ان اسباب کے چلتے ان کے انتظام میں شرارتی اور فسادی گھس آئے؟ یہ ماننے کی بھلے ہی اچھی وجوہات ہوں کہ یہ عناصر پوری تیاری سے آئے تھے اور پلان کے مطابق انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں گاڑیوں کو آگ لگادی اور پولیس پر حملہ کردیا۔ (انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں