الوداع! لندن اب 2016ء میں ریومیں پھر ملیں گے


لندن میں پچھلے 17 دنوں سے جاری 30 ویں اولمپک کھیل موسیقی کی سرلہریوں اور کلچرل کی بانگی پیش کرتے ہوئے رنگا رنگ پروگرام اور آسمان میں روشنی کی چکاچوند والی آتش بازی چھوڑے جانے کے درمیان دنیا بھر کے کھلاڑیوں نے ایتوار کے روز لندن کو الوداع کہہ دیا۔ اب 2016ء میں برازیل کے شہر ریو میں پھر ملیں گے۔ تیسری مرتبہ اولمپک کی میزبانی کرنے والے واحد شہر لندن میں ہوئے ان کھیلوں میں 204 ملکوں کے 10500 کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ امریکہ اور چین نے ایک بار پھر اپنا دبدبہ قائم رکھتے ہوئے پہلے اور دوسرے مقام پر قبضہ جمایا جبکہ برطانیہ نے اپنا بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیسرے مقام پر رہا۔ یوں تو لندن اولمپکس میں ہرجیتنے والا ہیرو ہے لیکن کچھ ایک کھلاڑیوں کا نام خاص طور پر ابھر کر آیا۔ لندن اولمپک میں 4 کھلاڑی اصل چمپئن بن کر ابھرے ہیں۔ اس جیت کے لئے کسی نے سنگین بیماری کو ہرایا تو کسی نے پریکٹس اور مشکل چیلنجوں کو بونا کردیا۔ان کی جدوجہد کی مثال ہے جذبے اور لگن کی ۔ لندن اولمپکس کے سب سے تیز ایتھلیٹ بنے جمیکا کے اوسین بولٹ۔ انہوں ن ے تین طلائی تمغے جیتے 100-200 اور چار گنا سو رلے۔ بولٹ بچپن میں کرکٹ کے دیوانے تھے وہ دنیا کی سب سے تیز بال پھینکنے کا خواب دیکھتے رہے۔ ان کے ہیرو تھے پاکستانی تیز گیند باز وقار یونس۔ ہائی اسکول میں بورٹ کو بالنگ رن اپ پر دوڑتے ہوئے دیکھ وہاں کے ایتھلیٹکس کوچ پابلو میکلین نے انہیں 200 میٹر ریس کے لئے چنا۔ لیکن انہیں تو 200 میٹر ریس کا گلیمر پسندتھا۔ کوچ سے خواہش ظاہر کی توجواب ملا پہلے 200 میٹرریس جیت کر دکھاؤ۔ جولائی 2007ء میں بولٹ نے200 میٹرریس میں قومی ریکارڈ بنایا۔ پہلے ہی اولمپک میں 100 میٹرریس میں انہوں نے 10.33 سیکنڈ میں جیت کر سبھی کو چونکادیا۔امریکہ کے مائیکل کیلس نے بیجنگ اور لندن کے دونوں اولمپکس میں 20 میڈل جیتے ہیں جو آج تک کا ریکارڈ ہیں۔ وہ رات کے اندھیرے میں تیراکی کرتے، صرف اس لئے تاکہ وہ گن سکیں کے کتنے ہاتھ مارنے سے پول کی لمبائی طے ہورہی ہے تاکہ بنا دیکھے ہی دیوار کود کر واپس لوٹ سکیں۔مقابلے کے دوران تیرتے ہوئے پول کا کور دیکھنا وقت کو واضح کرنا تھا تو تیاری بیجنگ اولمپک میں کام آگئی۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یہاں انہوں نے 200 میٹر بٹرفلائی کا ورلڈ ریکارڈ اندھے پن کی حالت میں بنایا۔ دراصل اس مقابلے کے فائنل کے دوران ان کے چشمے میں پانی بھر گیا ایسے میں بلائنڈ پریکٹس کام آگئی۔امریکہ کی ونیہ رچرڈ راس بیجنگ اولمپک کی400 میٹرریس میں تانبے کا میڈل جیت پائی تھی۔ پچھلے چال برسوں میں راس کو ان کی ناکامی کے ڈپریشن کے علاوہ بیروٹس سنڈروم سے بھی شکار ہونا پڑا جس سے ان کے منہ میں خوفناک چھالے ہوجاتے ہیں اور جبڑے درد کرنے لگتے ہیں۔ 2010ء میں طویل علاج کے بعد وہ دوبارہ ٹریک پر لوٹی ہیں۔ ان کی واپسی میں نیشنل باسکٹ لیگ کھلاڑی اور ان کے شوہر ایٹون راس نے ساتھ دیا۔ راس کہتے ہیں یہ واپسی ان کی جسمانی سے زیادہ ذہنی تھی۔ لندن میں انہوں نے 400 میٹر کی ریس میں امریکہ کو 28 سال بعد طلائی میڈل دلوایا۔امریکی تیراک ڈانا وولچر کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔2003 ء میں ان کے دل کی دھڑکنیں چار گنا تیز ہونے لگیں۔ ڈانا کی ہارٹ سرجری ہوئی لیکن ڈاکٹروں نے خبردار کردیا کہ ڈانا کو کبھی بھی ہارٹ اٹیک ہوسکتا ہے۔ ڈانا نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کیا اور ایسا ظاہر کیا کہ انہیں کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہمیشہ وہ ہلکے پھلکے دورے کے بعد شاک دینے والی مشین اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔2004ء میں ایٹھیلکس اولمپکس میں جب انہوں نے طلائی میڈل جیتا تب بھی ناظرین میں اس مشین کے ساتھ موجود تھی۔ لندن میں بھی یہ ہی ہوا۔ یوں تو سینکڑوں کہانیاں ہیں۔ میں نے محض تین چار کا ذکر کیا ہے۔ اب بات کرتے ہیں بھارت کی۔ میری شخصی رائے میں بھارت کا کھیل کا مظاہرہ اچھا رہا۔ بیشک ہم اتنے میڈل نہیں جیت سکے لیکن ہم ان کھیلوں کو محض میڈلوں سے تول نہیں سکتے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ جتنے بھی کھلاڑی حصہ لیتے ہیں سبھی تمغہ جیتنا چاہتے ہیں۔اس کے لئے ٹریننگ لی تھی۔ہر کھلاڑی یہ ضروری ہے کہ وہ فٹنس کے اعلی معیار پرکھرے اتریں کیونکہ طلائی میڈل جیتنے والے اور سلور میڈل جیتنے والے کے درمیان اکثر بیحد کم فرق ہوتا ہے۔ عام طور پر چار پانچ ایسے مقابلہ جاتی امیدوار ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے تقریباً برابر ہوتے ہیں۔ اس لئے فیصلہ تھوڑے بہت فرق سے ہوتا ہے۔ ایک نمبر کے فرق سے ہار جیت طے ہوجاتی ہے۔ میں بھارت کے لئے لندن اولمپک کو اس لئے تاریخی مانتا ہوں کہ ہم نے اپنی اولمپک تاریخ میں سب سے زیادہ 6 میڈل جیتے ہیں۔ حالانکہ بہت سارے کھیل شائقین کو امریکہ اور پڑوسی چین تمغوں کی تعداد دیکھ کر تھوڑی مایوسی ہوسکتی ہے۔ لیکن گلوبل اسپورٹس سمجھے جانے والے گیمس تیر اندازی، شوٹنگ، کشتی، باکسنگ میں ہمارے پاس کم سے کم20 ایسے کھلاڑی ہیں جنہیں ورلڈ کے ٹاپ 20 کھلاڑیوں میں رکھا جاسکتاہے۔گوانگو میں2010ء میں ہوئے ایشیارڈ کے ایتھلیٹکس میں بھارت نے5 گولڈ سمیت کل 12 میڈل حاصل کئے تھے اور چین کے بعد دوسرے نمبر پر رہا تھا۔ ان ایوینٹس میں تکوریا اور جاپان جیسے دیش ہم سے پیچھے رہے۔ خاص بات یہ رہی کہ بھارت نے جو بھی میڈل جیتے وہ شخصی مقابلے میں جیتے۔ کشتی، بیٹ منٹن، شوٹنگ، باکسنگ شامل ہیں۔ ہم کسی بھی ٹیم ایوینٹ میں نہیں جیت کسے۔ سب سے خراب کارکردی ہاکی میں رہی جب ہم آخری مقام پر رہے۔ باکسنگ میں ہم اور میڈل جیت سکتے تھے لیکن ہمارے ساتھ بے ایمانی ہوئی اور زبردستی ہمارے باکسروں کو ہٹا دیا گیا۔ لندن میں میری رائے میں سب سے عمدہ کارکردگی پہلوان سشیل کمار کی رہی جو 2 اولمپک میڈل جیتے اور نئی تاریخ بنائی۔ یوگیشور دت کی جیت کمال کی تھی۔ بیٹ منٹن میں چین کے دبدبے کو آج تک کوئی نہیں توڑ سکتا تھا۔ سائنا نے پہلی بار چین کو چیلنج کیا۔ ہم نے کبھی یہ تصور نہیں کیا ہوگا کہ لندن اولمپکس میں پہلی بار عورتوں کی مکے بازی میں میری کام تانبے کا میڈل لائیں گی۔ شوٹنگ میں جہاں ابھینیو بندرا سوڑی کا اچھا کھیل نہیں رہا وہیں بجندر سنگھ سے باکسنگ میں امیدروں پر پانی پھر گیا۔ ٹینس اور تیر اندازی میں ہمیں بہت امید تھی لیکن وہ بھی کھرے نہیں اترپائے۔ اس بار ہمارے81 کھلاڑیوں نے اولمپک میں حصہ لیا تھا جن کی تعداد پچھلی مرتبہ محض58 تھیں۔ کیا یہ بڑی بہتری نہیں ہے۔ ایتھلیٹوں کی تعداد قریب25 فیصدی بڑھی ہے اور کل تمغوں کی تعداد 100 فیصد بڑھی ہے۔ ہم ہمیں 2016 ء کے اولمپک جو برازیل کے شہر ریو میں ہوگے ،پر توجہ دینی چاہئے اور اس اولمپک میں ہم نے کہاں کہاں بھول کی اس کا پوسٹ مارٹم کر آگے بڑھنا ہے۔ لندن اولمپک بلا شبہ ایک نہایت کامیاب ایوینٹ تھا۔ حالانکہ تنازعوں سے نہیں بچ سکا لیکن کل ملاکر اچھا ہی رہا۔ میں نے پورے17 دن اولمپک کھیلوں کا مزہ لیا۔ الوداع لندن۔ اب ریو کا انتظار رہے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!