پاکستان میں اقلیتیں کتنی محفوظ ہیں؟
پاکستان سے بھارت آنے کے لئے جمعہ کو نکلے 300 ہندو اور سکھوں کے جتھے کو پاکستان نے اٹاری واگھہ بارڈر پر روک دیا۔سبھی سے لوٹنے کے لئے تحریری وعدہ لیا گیا۔ اس کے بعد ان میں سے150 لوگوں کو بھارت آنے دیا گیا۔ بھارت جانے کے لئے سرحد پر پہنچے تقریباً300 ہندو و سکھوں کو پاکستانی حکام نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ صبح سے ہی بارڈر پر بیٹھے ان شردھالوؤں میں سے زیادہ تر کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑا جبکہ کچھ گورودوارہ ننکانا صاحب میں ٹھہر گئے اور دیر شام تقریباً 150 لوگوں کے جتھے کو بھارت آنے کی اجازت دے دی گئی۔ پاکستان منتظمین نے ان سے لکھ کر لیا ہے کہ وہ بھارت میں اپنے رشتے داروں کے پاس نہیں رہیں گے اور مذہبی تیرتھ استھانوں کے درشن کے بعد وطن لوٹ آئیں گے۔ اس سے پہلے ان لوگوں سے تقریباً سات گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی گئی۔ پاکستان میں ہندو ۔ سکھوں پر مظالم مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ حال ہی میں ایک ہندو لڑکی کو زبردستی مسلمان کرنے کی خبر پوری دنیا نے دیکھی۔ ہندو ۔ سکھوں کی دکانیں لوٹنے اور ان پر حملے اور عورتوں کو زبردستی اسلام قبول کرانے جیسے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتوں اور خاص طور پر ہندوؤں کے ساتھ ہونے والے امتیاز پر حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ آئی ہے۔ پاکستان میں کل آبادی کا پانچ فیصد سے بھی کم حصہ اقلیتوں کا مانا جاتا ہے جن میں ہندو بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کا دعوی ہے کہ زبردستی تبدیلی مذہب روکنے کے لئے سرکار کی طرف سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ پاکستان انسانی حقوق کونسل کے اعدادو شمار کے مطابق ہر مہینے 20 سے25 ہندو لڑکیاں اغوا کرلی جاتی ہیں اور انہیں زبردستی اسلام قبول کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے رپورٹ میں مثال کے طور پر ایک واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے پچھلے سال 9 نومبر کو چار ہندو ڈاکٹروں کی سندھ صوبے میں گولی مار کر ہتیا کردی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے یہ حملہ ایک ہندو مرد اور مسلم عورت کے درمیان تعلقات کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس معاملے کی جانچ پڑتال ایک سال سے التو میں ہے ۔کوئٹہ سے آئے باگھا بارڈر سے پرانی دہلی اسٹیشن پر 70سالہ سرنجیت سنگھ نے بتایا کہ آج پاکستان نے ہمارے لئے کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا ہے جو بھی تھا وہ سب دہشت گرد لے گئے ہیں صرف جان بچی ہے ان کی سلامتی کے لئے ہندوستان میں رہ رہے رشتہ داروں کے یہاں پناہ لی ہے پھر وہ کہتی ہے کہ اب بھروسہ نہیں رہا ہے کہ اب وہاں فضا بدلیں گی دہشت گردوں کا ظلم اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وطن واپسی کے نام سے ہی روح کانپ اٹھی ہے۔سمرن جیت کور اور دوسرے چار ہندو کنبے بھی پرانی دہلی اسٹیشن پہنچیں۔ جنرل اسٹور چلانے والے وکی باک واسی کہتے ہیں کہ پچھلے دو سال میں شاید کوئی ایسا لمحہ رہا ہوگا جو سکون سے گزرا۔ ہندو کنبوں کے ساتھ مار پیٹ اورزرفدیہ کے لئے اغوا کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔ ہروقت یہ ہی ڈر لگتا رہتا ہے کہ آج کہیں ہماری بیٹی تو نہیں نشانہ بنے گی۔آخر کارمیں اندور میں رہنے والے اپنے موسا موسی کے پاس پناہ لینے آیا ہوں ۔ چھ مہینے کی لمبی جدوجہد کے بعد 35دنوں کاہندوستانی ویزا ملا ہے ۔خدا کاشکر ہے کہ اب اگلے کچھ دن سکون سے گزرے گے۔ کوئٹہ( پلوچستان) میں شراب کی دکان چلانے والے نریش کمار نے بتایا کہ مذہبی تشدد کے چلتے جب بات کنبے کی عصمت پر آگئی تو سمجھوتہ کئے بغیر ہم نے ہندوستان میں پناہ لینے کی سوچی۔ لیکن مجھے آج بھی پلوچستانی ہونے پر فخر ہے لیکن وہاں کی پھیلی دہشت نے مجھے اب پورے خاندان کے ساتھ اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ پاکستان سے ہندو سکھ ہجرت پر بھارت سرکار کو معاملے کوسنجیدگی سے لینا چاہئے۔ پاکستان ہندو کونسل نے بھی کراچی میں میٹنگ کرکے اس پر تشویش جتائی ہے۔ پاکستان میں بھی کئی لیڈروں نے اقلیتوں پر زیادتی کی بات قبول کی ہے اس معاملے کو پرزور طریقہ سے پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر اٹھاناچاہئے۔ بھارت کو اس مسئلے کو نئے پس منظر میں دیکھ کر حکمت عملی بنانی ہوگی۔ پاکستان سے ان اقلیتی کنبوں کو بھارت میں شرنارتھی کادرجہ دیاجاناچاہئے جو خاندان ابھی بھی بچے ہے ان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے بھارت سرکار پاکستان پر دباؤ بنائے آخر کار پاکستان میں رہ رہے اقلیتوں کی ذمہ داری پاک سرکار کی ہے جو اسے اٹھانی ہی چاہئے۔ (انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں