با بارام دیو کی تحریک کا کیا اثرہوگا؟


بابا رام دیو کی تحریک شانتی سے ختم ہوگئی۔ لگتا ہے کہ پچھلی بار اسی رام لیلا میدان کے واقعہ سے بابا نے کچھ سبق سیکھا ہے اور اس پر عمل بھی کیا ہے۔ اتنی بھیڑ کو ہر پل قابو میں رکھنا آسان کام نہیں تھا، جس میں بابا رام دیو کامیاب رہے۔ بابا نے انا ہزارے کی تحریک کو ایک طرح سے ہائی جیک کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ انہوں نے ان سبھی اشوز کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیا جسے لیکر انا چل رہے تھے۔ ویسے راجدھانی میں10 دنوں کے اندر دو تحریک اپنے قطعی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوگئیں۔ دونوں ہی تحریک مرکز میں یوپی اے سرکار کے خلاف رہیں ہیں۔ انا ہزارے کی تحریک سیاسی متبادل پر آکر ختم ہوئی لیکن بابا کی تحریک یوپی اے کے متبادل این ڈی اے کے طور پر ختم ہوتی نظر آئی۔ انا کی تحریک تہاڑ جیل سے شروع ہوئی تھی اور رام دیو کی تحریک عارضی جیل امبیڈکر پہنچ کر ختم ہوگئی۔ رام دیو کے اسٹیج پر جس طرح سے این ڈی اے کے لیڈر پہنچے اور بابا کی کھل کر حمایت کی اس سے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگلے عام چناؤ میں باباکو این ڈی اے کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ بابا روز مرہ گرگٹ کی طرح اس بار رنگ بدلے نظر آئے۔ رام دیو نے پہلے تین دن انشن کا اعلان کیا ، تین دن بعد سنیچر کو اگلی حکمت عملی اپنالی پیرکو صبح 10 بجے انشن ختم کریں گے اور اعلان کیا کہ انہیں سیاسی پارٹیوں کی حمایت مل رہی ہے۔ ادھر بال کرشن کی ضمانت نہیں ہوئی تو بابا نے سوا دس بجے پارلیمنٹ کوچ کا اعلان کردیا۔ حراست میں لیا تو کہا جیل میں توڑیں گے انشن۔ امبیڈکر اسٹیڈیم میں پہلے بولے کہ کھانے پانی پر انشن توڑیں گے۔ لوگوں کی بھیڑ امڑی تو مانگے مانے جانے تک انشن جاری رہے گا، پھر بولے 15 اگست کو اسٹیڈیم میں جھنڈا لہرائیں گے۔ آخر میں انشن بھی توڑدیا اور ہری دوار بھی چلے گئے۔ دیکھا جائے تو مرکزی حکومت انا کی طرح رام دیو کی تحریک سے بھی نمٹنے میں کامیاب رہی۔ حکومت نے پہلی بار کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھا۔ پہلی بار تو چار چار وزیر بابا کو ہوائی اڈے لینے گئے۔ اس مرتبہ سرکار نے بابا کو کوئی بھاؤ نہیں دیا نہ کوئی وزیر آیا اور نہ کوئی وعدہ کیا۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ جنتا کی آواز اٹھانے والی تحریکوں کے دوران عام لوگ ہی سب سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔ کالی کمائی کا اپنے طریقے سے علاج کرنے پر اڑے بابا رام دیو کی تحریک نے پیر کو دہلی کو جام کردیا۔ ہزاروں گاڑیاں جام میں پھنس گئیں ۔ ضروری کام کاج کے لئے نکلے لوگ اور مریض گھنٹوں پریشان ہوتے رہے۔ لاکھ ٹکے کا سوال ہے کہ اتنا دباؤ بنانے کے باوجود کیا بابا رام دیو کالی کمائی اور اپنی دیگر مانگوں کے اشو پر کوئی ٹھوس کامیابی حاصل کر پائیں گے؟ انہوں نے سی بی سی اور چناؤ کمیشن کو مکمل آزادی دینے کا اشو اٹھایا اور اس کے ساتھ ہی لوکپال کے اشو پر بھی زور دیا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تین چار دن کے الٹی میٹم میں اتنی مانگوں کو پورا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ضد کچھ کچھ ٹیم انا جیسی ہے جو ایک وقت میں چاہتی تھی کے پارلیمنٹ اور سرکار ان کے ذریعے بنائے گئے لوکپال کے مسودے کو فوری طور پر منظور کرلے۔ ان دونوں تحریکوں کو یہ سہرہ ضرور جاتا ہے کہ کرپشن اور کالی کمائی کا اشو آج سیاست کے مرکز میں جگہ لے چکا ہے مگر یہ بھی سمجھنا پڑے گا کہ آج کے سیاستدانوں میں چاہے وہ کسی بھی پارٹی کے کیوں نہ ہوں ، انہیں پورا کرنے کا نہ تو کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی قوت ارادی۔ ایسا نہ ہو کہ بڑے مقصد کے لئے شروع ہوا بابا کا یہ آندولن محض کانگریس کی مخالفت تک سمٹ کر رہ جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!