اکھلیش کے 100 دنوں نے ملائم راج کی یاد تازہ کردی ہے

اترپردیش کے نوجوان وزیر اعلی اکھلیش یادو کی حکومت نے اپنی میعاد کے 100 دن پورے کرلئے ہیں والد ملائم سنگھ یادو نے بیٹے کو 10 میں سے10 نمبر دئے ہیں لیکن عام جنتا میں اس سرکار کی ساکھ بہت حوصلہ افزا نہیں بن سکی۔ بیشک اس دوران انہوں نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہوں لیکن عام طور پر یوپی کی عوام میں مایوسی ہے۔ عام خیال یہ بن رہا ہے کہ کہیں سماجوادی پارٹی کا اقتدار جو ملائم کے وقت تھا ویسی ہی حکمرانی اکھلیش کی قیادت میں سرکار میں ہورہی ہے۔ 100 دن کے راج میں جرائم بے تحاشہ بڑھے ہیں۔ ان 100 دنوں میں 149 قتل ہوئے ہیں۔ گذشتہ دنوں صدارتی عہدے کے امیدوار پرنب مکھرجی اکھلیش یادو کے گھر کھانے پر گئے تھے۔ وہ صدارتی چناؤ کے لئے ووٹ مانگنے کے لئے تشریف لے گئے تھے اس ضیافت میں سب یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کے دبنگ ممبر اسمبلی مختار انصاری (15 مقدمے) و وجے مشرا (25 مقدمے) بھی وزیر اعلی کی رہائش گاہ پر شان سے بیٹھے تھے جبکہ جیل میں بند ان دونوں خطرناک لیڈروں کو صرف اسمبلی میں آنے کی اجازت تھی۔ اس واقعے سے واویلا کھڑا ہوگیالیکن یہ صاف اشارہ گیا کہ سپا کا پرانا راج لوٹ آیا ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ قتل ،لوٹ مار ، آبروریزی کے معاملے گذشتہ سال کی بہ نسبت ڈیڑھ گنا بڑھے ہیں۔ لیکن یوپی سرکار کے شہری سلامتی وزیر درگا یادو کی دلیل ہے کہ اترپردیش میں بھگوان بھی سرکار بنالیں تو بھی جرائم پر قابو نہیں پاسکتے۔ صوبے کے تقریباً ہر تھانے پر یادو تھانیدار مقرر ہوگیا ہے۔ ہر اہم عہدے پر پہلے یادووں کو رکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی عہدہ بچایا کوئی یادو برادری کا افسر نہ ملے تو پھر دوستی ذات کے افسر کو موقعہ ملتا ہے۔ اکھلیش کی جیت کے بعد رد عمل کے طور پر تھوڑی سیاسی بدلے کی وارداتیں ہونا فطری تھا لیکن سپا چھٹ بھیا نیتاؤں کی دبنگئی نے تو ساری حدیں پار کردی ہیں۔ پچھلے تین مہینوں میں پولیس فورس نے ریاست بھر میں قریب 30 شکایتیں لکھنؤ بھیجی ہیں۔ زیادہ تر معاملے سپا لیڈروں سے متعلق ہیں ان پر کارروائی تو دور الٹے کچھ معاملے میں پولیس افسروں کو ہی راتوں رات لائن حاضر کردیا گیا ہے۔ چناؤ کے وقت یوپی کی عوام کو یہ ڈر ستا رہا تھا کہیں وہی ملائم راج دوبارہ نہ لوٹ آئے اور اسی وجہ سے ملائم سنگھ کو یہ بھی یقین دہانی کرانی پڑی تھی کہ ہم کسی کو نہیں بخشیں گے۔ ووٹروں کو اکھلیش پر زیادہ بھروسہ تھا جو اب آہستہ آہستہ ٹوٹ رہا ہے۔ بھاجپا کے ترجمان وجے پاٹھک کا الزام ہے کہ پچھلے تین مہینے میں بندیل کھنڈ میں 18 کسانوں نے خودکشی کرلی ہے۔ کیا کچھ سپا نیتا جان بوجھ کر سیاست کے تحت اکھلیش کو ناکام ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ اکھلیش سرکار بھی کیبنٹ میں زیادہ وزیر ملائم سنگھ یادو کے پرانے ساتھی ہیں جنہیں اکھلیش بچپن میں چاچا کہا کرتے تھے ۔ لکھنؤ کے سیاسی گلیاروں میں اب یہ کہاوت چل پڑی ہے کہ وزیر اعلی بھتیجے پر چاچا منتری بھاری پڑ رہے ہیں۔ خاص طور پر شری پال سنگھ یادو جو ان کے سگے چاچا ہیں اور اعظم خاں ایسے سینئر لیڈروں کے سامنے اکھلیش بونے ثابت ہورہے ہیں۔ ملائم سنگھ بھی اس کہاوت سے واقف ہیں اور سارا بوجھ مایاوتی سرکار کے کچھ قریبی ان افسروں پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کے یہ لوگ اکھلیش سرکار کو بدنام کرنے میں لگے ہیں۔ اکھلیش کو اپنے اسٹائل میں تبدیلی لانی ہوگی نہیں تو ان کی بنی ساکھ مٹی میں مل جائے گی۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟