مہنگائی پر بحث میں سشما اور پرنب دا میں نوک جھونک
Published On 11th December 2011
انل نریندر
پارلیمنٹ کے چلتے ہی اپوزیشن نے مہنگائی کے مورچے پر منموہن سرکار پر کرارا حملہ بول دیا ہے۔ اس مسئلے پر اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج کی تقریر کافی اہم تھی۔ ان کے اور وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کے درمیان نوک جھونک بھی اہم رہی۔ یہ دیکھ کر اچھا لگاکہ بھارت کی جنتا کی سب سے بڑی پریشانی دونوں اپوزیشن اور سرکار کی بیداری ہے اور جنتا کو اس سے نجات دلانے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ سشما سوراج اور دیگر اپوزیشن لیڈروں نے مہنگائی پر بحث میں سرکار کی پالیسیوں و نیت ، وعدوں اور ارادوں کی دھجیاں اڑادیں۔ بحث کا آغاز مارکسوادی لیڈر گورو داس داس گپتا نے کیا تھا لیکن سرکار پر کرارا حملہ سشما نے بولا۔ جب پرنب مکھرجی نے مہنگائی شرح 11.8 فیصدی سے گھٹ کر6.6فیصدی ہونے کی بات کہی تو سشما نے کہا ریڑی اور بیڑی اور چھابڑی والے فیصدی کی زبان نہیں سمجھتے۔ انہیں بس یہ پتہ ہوتا ہے کہ کتنا پیسہ آتا ہے اور جاتا ہے۔ تلخ تبصرہ کرتے ہوئے سشما نے کہا اس سرکار کا امیروں کا پیمانہ ہے تو پاؤ بھر آٹا ،دو تولہ دال، ایک چمچ تیل اور ایک چٹکی نمک ہے ۔دیش کے 121 کروڑ لوگوں کو تو دو وقت کی روٹی چاہئے۔اس کے لئے ان کے پاس 242 کروڑ ہاتھ ہیں لیکن شرح سود بڑھا کر مہنگائی گھٹائیں گے تو ان ہاتھوں کا کام ضرور چھن جائے گا۔ انہوں نے کہا این ڈی اے کے عہد میں وزیر خزانہ فیصدی میں بجٹ نہیں دیتے تھے۔ ہندوستان کی معیشت کو ہارورڈ اور آکسفورڈ والے نہیں سمجھ سکتے۔ انہوں نے کہا امریکہ کے سامنے ساکھ بہتر بنانے سے چھٹکارا نہیں ہوتا اس کے لئے غریب آدمی کی آمدنی بہتر ہونی چاہئے۔ قیمتوں میں اضافے کے لئے سرکار کی غلط پالیسیاں، بدعنوانی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سشما نے کہا اگر سرکار جنتا کو راحت دینے کے بجائے مایوسی اور لاچاری کی بات کرتی ہے تو اسے اقتدار سے ہٹ جانا چاہئے۔ وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کے ساتھ ہوئی نوک جھونک میں سشما نے پلٹ وار کرتے ہوئے کہا نمبروں کے کھیل سے دکھی جنتا کا پیٹ نہیں بھرتا۔ جمعہ کو بھی پرنب اور سشما کے درمیان مہنگائی پر نوک جھونک جاری رہی۔ اس وقت سشما نے پرنب سے کہا تھا کہ پیٹ اعداو شمار سے نہیں بھرتا دانوں سے بھرتا ہے۔ اس کے لئے عام آدمی کو جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ پرنب دا نے اپوزیشن خاص کر بھاجپا پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وقت اب جذباتی باتوں کا نہیں کام کرنے کا ہے۔ اگر مہنگائی کم کرنی ہے تو اپوزیشن کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ وہ مہنگائی گھٹانے کی تجویز کیوں نہیں پیش کرتی؟ اقتصادی معاملوں میں تعاون کیوں نہیں کرتے؟ پرنب دا نے کہا کیا اپوزیشن لیڈر چاہتے ہیں کہ ہم تیل کمپنیوں پر اتنا بوجھ لاد دیں کہ وہ ایک دن میں بند ہوجائیں۔ سشما سے بات کرنے کے لہجے میں پرنب نے کہا کہ اپوزیشن کے لوگ کھل کر بتائیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ وہ چاہتے ہیں سبسڈی بڑھائی جائے یا سبسڈی کچھ سیکٹروں تک محدود رہے۔ سرکار جو کررہی ہے وہ انہیں منظور نہیں ہے۔ اگر منظور نہیں ہے تو وہ حکومت کو بتائیں کیا کرنا ہے؟ بیشک یہ صحیح ہے کہ اگر اپوزیشن کے پاس کچھ ٹھوس تجویزیں ہوں تو وہ سرکار کو ضرور دیں۔ لیکن ہم پرنب دا کو بتانا چاہیں گے کہ سرکار چلانا، پالیسیاں طے کرنا، جنتا کو راحت پہنچا سرکار کا کام ہے، اپوزیشن کا نہیں۔ آپ اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتے۔ اگر سرکار سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے امریکہ نواز اس وزیر اعظم اور ان کے سپہ سالار پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کی پالیسیوں کو مسترد کردے۔ ان کی جگہ پرنب دا آپ خود پالیسیاں بنائیں۔ آپ ان دونوں سے کہیں زیادہ بہتر ماہر اقتصادیات ہیں۔ آپ سیاستداں ہیں جو عام آدمی کا دکھ درد بہتر سمجھتے ہیں۔ ماہر اقتصادیات وزیر اعظم نے تو دیش کا اقتصادی سسٹم ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے.Anil Narendra, BJP, Congress, Daily Pratap, Pranab Mukherjee, Sushma Swaraj, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں