ہم پارلیمنٹ کے شہیدوں کے ورثا کا دکھ سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں



Published On 16th December 2011
انل نریندر
پارلیمنٹ پر حملے کی دسویں برسی پر شہید ہوئے جوانوں کے ورثا نے کہا کہ جب تک حملے کے قصوروار افضل کو پھانسی نہیں دی جاتی تب تک وہ کسی بھی سرکاری پروگرام میں شریک نہیں ہوں گے۔ یہ ہی نہیں انہوں نے پارلیمنٹ میں شردھانجلی دینے کیلئے منعقدہ تعزیتی پروگرام میں بھی شرکت سے انکارکردیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے صدر کو بھی ایک میمورنڈم سونپا۔ وہیں اے آئی ٹی ایف کی جانب سے امر جوان جوتی پر ہوئی ایک شردھانجلی سبھا میں شہیدوں کو یاد کیا گیا۔ حملے میں شہید ہوئے دہلی پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل کے والد سرکار سنگھ ، شہید جے پی یادو کی بیوی پریم یادو ، شہید حولدار وجیندر سنگھ کے سسر کیپٹن جگموہن سنگھ ، سی آر پی ایف کی شہید مہلا کانسٹیبل کملیش یادو کے پتے اودھیش کمار سمیت دیگر شہیدوں کے متاثرہ رشتے دار موجود تھے انہوں نے ایک آواز میں کہا جب تک افضل کو پھانسی نہیں دی جاتی تب تک وہ کسی سرکاری پروگرام میں حصہ نہیں لیں گے۔ ہم مصیبت زدہ خاندانوں سے نہ صرف ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ ان کے مطالبے کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ آخر آتنکی افضل کو سزا کب ملے گی؟ اس سوال سے دیش کے حکمرانوں کو شاید کوئی فرق نہ پڑتا ہو لیکن عام شہری کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ آخر جس آدمی نے دیش کی عزت پر حملہ کیا ہو ہماری آن بان شان مٹی میں ملا دی ہو اس آدمی کو یوپی اے سرکار بطور سرکاری مہمان بنا کر کیوں پال رہی ہے؟کیا صرف ووٹ بینک کا تقاضہ ہی ایسے اہم فیصلے کے لئے بنیاد ہوگا؟ کیا یہ سرکار اتنی سی بات نہیں سمجھ پاتی کہ اس کی موجودگی کا ہماری سکیورٹی فورس کے حوصلے پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے پچھلے سات سالوں سے افضل کا معاملہ فضول کے بہانوں کے سبب لٹکا ہوا ہے۔
ہماری رائے میں یہ نہ صرف آتنکیوں کو حوصلہ افزائی کے برابر ہے بلکہ ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے جیسا ہے۔ جنتا میں یہ سوال آج کھلے عام پوچھا جارہا ہے کہ اس طرح کے آتنک واد سے لڑنے کی قوت ارادی ہے بھی یا نہیں۔ سرکار اپنے ووٹ بینک کی سیاست کو اوپر رکھ کر دیش کی سلامتی سے سمجھوتہ کرتی ہے وہ دیش واسیوں کی سلامتی کتنی کر پائے گی؟ افضل کی رحم کی اپیل سے متعلق فائل پچھلے سات سالوں سے جس طرح وزارت داخلہ، دہلی سرکار اور راشٹرپتی بھون کے دوچار کلو میٹر کے دائرے میں گھوم رہی ہے ، اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے افضل کی سزا پر عمل میں ابھی کئی اور برس لگ جائیں گے۔ سرکار بے شرموں کی طرح جواب دے دیتی ہے کہ افضل گورو کی رحم کی اپیل کی فائل صدر کے پاس ہے اور راشٹرپتی بھون کو ہی اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ وزارت داخلہ نے افضل گورو کا معاملہ راشٹرپتی کے سکریٹریٹ کو 27 جولائی 2011 کو بھیجا تھا اور سفارش کی تھی کہ اسکی رحم کی اپیل کو نا منظور کیا جانا چاہئے۔ اگر مرکزی داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ کا یہ کہنا صحیح ہے تو پھر افضل کی پھانسی میں اڑچن کہاں ہے؟ دہلی سرکار، وزارت داخلہ دونوں نے ہی اپنی منظوری دے دی ہے اب تو صدر کو بس اپنی مہر لگانی ہے۔ رحم کی اپیل کو مسترد کرنا ہے۔ اس میں کتنا اوروقت لگے گا؟
Afzal Guru, Anil Narendra, Daily Pratap, delhi Police, Martyres, Parliament, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!