کولکتہ کے بدقسمت صحت یاب ہونے آئے تھے لیکن ملی موت


Published On 13th December 2011
انل نریندر
پچھلے کچھ عرصے سے کولکتہ کے ہسپتالوں کی اخباروں میں سرخیاں بنتی رہی ہیں اور دنیا کو مغربی بنگال میں مریضوں کی خستہ حالت کا پتہ چلا ہے۔ جمعہ کی صبح کولکتہ کے ایڈوانس میڈیکیئر اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ اے ایم آر آئی میں خوفناک آگ لگ گئی۔ کولکتہ کے اس پرائیویٹ ہسپتال میں آگ لگنے سے تقریباً90 لوگوں کی موت ہوگئی۔ ان میں سے زیادہ تر مریض تھے جو آئے تو تھے ہسپتال میں ٹھیک ہونے کے لئے لیکن ہسپتال سے ان کی جلی ہوئی لاش نکلی۔ کیا اس سے زیادہ بدقسمتی اورکچھ ہوسکتی ہے کہ لوگ جہاں زندگی کی سلامتی کی امید میں آئے وہیں انہیں قیامت کا شکار ہونا پڑا۔ مرنے والوں میں نوزائدہ بچے بھی شامل تھے۔ جمعہ کی صبح سویرے آگ سانحہ پیسے اور رسوخ کے دم پر سرکار کی مشینری کے ساتھ ملی بھگت کر قاعدے قانون کی دھجیاں اڑانے کی تازہ مثال ہے۔ یہ واقعہ ہمارے اس لچر سسٹم کی پول کھولتا ہے جس میں حساسیت مسلسل ختم ہوتی جارہی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال کمائی کرنے کا گارنٹی شدہ ذریعہ بن گئے ہیں۔
اس کثیر منزلہ پرائیویٹ ہسپتال میں جب آگ لگی تب وہاں اس سے بچنے کے لئے احتیاطی وسائل تک موجود نہیں تھے۔ زیادہ تر لوگوں کی موت دم گھٹنے سے ہوئی کیونکہ شیشوں کے پینلوں کے سبب کاربن مونوآکسائیڈ اور امونیا کا زہریلا دھنواں باہر نہیں نکل پایا اور وہاں آکسیجن کی کمی ہوگئی۔ اس حادثے کے لئے ہسپتال کے ملازمین تو ذمہ دار ہیں ہی مگر انتظامیہ کوبھی جوابدہ ہونا چاہئے۔ لائسنس دینے والے اور اجازت دینے والے جوابدہی سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ آخر محض چار پانچ سال پہلے بنی اس ایئر کنڈیشن ہسپتال کی عمارت میں اتنا بڑا حادثہ کیسے ہوگیا؟ اس سے مطمئن نہیں ہوا جاسکتا۔ وزیر اعلی ممتا بنرجی نے سانحہ کی اعلی سطحی جانچ کے حکم دینے کے ساتھ ہی ہسپتال کا لائسنس بھی منسوخ کردیا ہے اور مینجمنٹ کے لوگوں کو لاپرواہی اور غیر ارادتاً قتل کے الزام میں گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ انتظامیہ اور مقامی سسٹم کو اس سوال کا بھی جواب دینا ہوگا آخر اس بدقسمت ہسپتال میں سلامتی کے موزوں انتظام کیوں نہیں تھے؟ ہسپتال کے جس تہہ خانے کا استعمال پارکنگ کے لئے ہونا چاہئے تھا وہاں زندگی بخش سامان کیوں نہیں تھا۔ کیا وجہ رہی ہسپتال انتظامیہ نے فائر برگیڈ اور پولیس کی اس وارننگ کو کیوں نظر انداز کردیا جس میں تہہ خانے کے بیجا استعمال کو لیکر خبردار کیا گیا تھا؟ کیا یہ لاپرواہی کی ایک صریحاً مثال نہیں ہے کہ آگ کا شکار ہوا سات منزلہ ہسپتال ویسے تو ایئر کنڈیشن تھا لیکن آگ کے بچاؤ کے اس میں وسائل ندارد تھے۔ مغربی بنگال کی حکومت اس حادثے کے بعد یہ دلیل دے کر اپنا پلہ نہیں جھاڑ سکتی۔ لیفٹ پارٹیوں کے لمبے عہد نے سب کچھ تباہ برباد کردیا۔
ممتا بنرجی کو اقتدار سنبھالے ابھی چھ مہینے ہورہے ہیں اصلاحات کی سمت میں کام آگے بڑھانے کے لئے انہیں فرصت نہیں ہے۔ پچھلے کچھ وقت سے ہسپتالوں کی دردشاکے معاملے بھی سرخیاں بنتے رہے ہیں۔ اب بھی ریاستی سرکار کی آنکھیں نہیں کھلیں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دیگر شہروں میں بھی زیادتر یہی حالت ہے۔ امید کی جاتی ہے ریاستوں کی حکومتیں اس آگ سے سبق لیں گی اور اپنے اپنے راجیوں میں ہسپتالوں میں سختی سے آگ کے واقعات سے نمٹنے کیلئے موزوں اقدامات پر خاص توجہ دیں گی۔
AMRI Hospital, Anil Narendra, Daily Pratap, Kolkata, Mamta Banerjee, Vir Arjun, West Bengal

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!