اجمل قصاب پر اب تک 100 کروڑ روپے خرچ ہوئے



Published On 29th November 2011
انل نریندر
26 نومبر کو مجھے ایک دوست سے ایس ایم ایس ملا کہ شرد پوار کو تھپڑ مارنے والے ہروندر سنگھ کوجلد ہی سزا ہو جائے گی اور درجنوں بے قصوروں کو مارنے والے اجمل قصاب کو اتنے برس گذرنے کے بعد بھی سزا نہیں ہوئی۔26/11 کے آتنکی حملے کے تین سال بعد بھی اجمل قصاب کو پھانسی نہیں ہوسکی۔پھانسی دینا تو دور رہا اسے ہم پال پوس رہے ہیں، بریانی کھلا رہے ہیں۔ خبر ہے کہ قصاب پر حکومت ہند اور مہاراشٹر سرکار نے اب تک 100 کروڑ روپے خرچ کردئے ہیں۔ اس سیاہ دن کا محض ایک زندہ ملزم قصاب اس وقت ممبئی کی جیل میں بند ہے۔ یہ خرچ اس کی اسپیشل سکیورٹی ، اسپیشل وارڈ اور اچھے کھانے پینے اور وکیل کی فیس پر کیا گیا ہے جبکہ بدقسمتی دیکھئے کہ حملے کے متاثرین کے ورثاء کو13.73 کروڑ روپے ہی دئے گئے ہیں۔ حملے میں مارے گئے لوگوں کے ورثاء نے جمعہ کو مہاراشٹر کے گورنر سے مل کر ان کو حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدے پورے کرنے کی اپیل کی۔ اسی دن 26/11 کی تیسری برسی پر مہاراشٹر کے وزیر اعلی پرتھوی راج چوہان سے ملنے جارہیں ۔متوفی افراد کی بیواؤں اور رشتے داروں کو حراست میں لیکر حوالات میں ڈال دیا گیا۔ یہ لوگ وزیر اعلی کو ان کے سرکاری وعدے کی یاد دلانے جارہے تھے جو اب تک پورے نہیں ہوئے۔ صرف قصاب کو ہی اب تک پھانسی نہیں دی گئی بلکہ مہاراشٹر سرکار نے متوفین کے ورثاء سے جو وعدے کئے تھے وہ بھی پورے نہیں کئے۔ حراست میں لئے گئے لوگوں میں 26/11 کے علاوہ ممبئی میں اب تک تین آتنکی واردات میں متاثرہ افراد کے لوگ شامل تھے۔ان کے مطابق مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعے دہشت گردی کا شکار خاندان کو دی جانے والی تین لاکھ روپے کی رقم بہت سے خاندانوں کو اب تک نہیں ملی کیونکہ ریاستی حکومت نے متاثرین کو یہ پیسہ دلانے کی پہل ہی نہیں کی۔اس مارچ کی قیادت کررہے سابق ایم پی کرٹسومیا کے مطابق 26/11 کے حملے میں مرے 163 لوگوں میں سے صرف61 کے رشتہ داروں کو ہی یہ معاوضہ مل سکا ہے۔ اسی طرح فروری 2010ء میں پنے میں ہوئے جرمن بیکری کانڈ میں مارے گئے 17 لوگوں میں سے صرف11 کے رشتے داروں کو اب تک معاوضہ رقم ملی ہے۔26/11 کو ہوئے آتنکی حملے میں بچ نکلنے میں کامیاب رہے لوگ اب بھی قصوروار ٹھہرائے گئے پاکستانی بندوقچی اجمل قصاب کو پھانسی پر چڑھائے جانے کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ اس بات سے حیرت زدہ ہیں کہ آخر کار سرکار قصاب کو کیوں بچانے میں لگی ہے؟ 13 سالہ لڑکی دیویکاشیکھرن نے کہا کہ'' قصاب کو ابھی تک کیوں نہیں پھانسی پر لٹکایاگیا؟ ہماری حکومت آخر کس چیز کا انتظار کررہی ہے؟ کیا ایک اور26/11 جیسے حملے کا انتظار ہے؟ دیویکا کے والد نٹور لال یہاں چھترپتی شیواجی ٹرمنل پراپنی بیٹی اور بیٹے کے ساتھ ٹرین کا انتظار کررہے تھے اسی دوران آتنک وادیوں نے ریلوے اسٹیشن پر گولیاں چلانی شروع کردیں۔ آتنک وادیوں کی ایک گولی دیویکا کے داہنے پاؤں پر لگی ، جو عدالت میں گواہی دینے کے دوران سب سے نوجوان چشم دید گواہ تھی۔ دیویکا کو طویل عرصے تک بیساکھی کے سہارے چلنا پڑا۔ اوبرائے ہوٹل میں اپنے پتی پنکج کو کھونے والی کلپنا شاہ کیلئے آتنک وادیوں کو معاف کرنا یا بھولنا اس کے لئے آسان نہیں۔ انہوں نے کہا میں اپنے شوہر کو روزانہ یاد کرتی ہوں اور ان کی کمی زندگی بھر رہے گی۔ 26/11 میں مارے گئے باپو صاحب ٹورگڑے کی بیوی ارونا نے کہا میرے شوہر اے ٹی ایس میں افسر تھے ان کی شہادت نے مجھے اور مضبوط بنا دیا۔ میں نے وقت کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے لیکن حملوں کے تین سال بعد بھی میں یہ نہیں سمجھ پائی کہ اجمل قصاب اب تک کیوں زندہ ہے۔ شہید پولیس ملازم ارون چتتے کی بیوی منیشا چتتے کا کہنا ہے کہ میری بڑی بیٹیوں کو پتہ ہے ان کے پاپا اب شہید ہوگئے ہیں لیکن چھوٹی اب ان کی فوٹو دیکھتی رہتی ہے کہ شہید کیا ہوتا ہے؟ میں جاننا چاہتی ہوں کہ قصاب کو پھانسی کب دی جائے گی۔''
26/11, Anil Narendra, Daily Pratap, Qasab, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!