خوردہ میں ایف ڈی آئی کا فیصلہ سرکار کو ٹال دینا چاہئے



Published On 30th November 2011
انل نریندر
خوردہ بازار میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی منظوری کا اشو منموہن سنگھ سرکار کے لئے بڑا سیاسی درد سر بن گیا ہے۔ پارلیمنٹ سے لیکر سڑکوں تک حکومت کوایف ڈی آئی کے معاملے پر سخت اختلاف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یوپی اے سرکار کے ملٹی برانڈ ریٹیل میں 51 فیصدی اور سنگل برانڈ ریٹیل میں 100 فیصدی کی اجازت دیکر کیبنٹ نے ایسی مصیبت مول لے لی ہے کہ کانگریس کے مخالفین تو ایک طرف سرکار کی کچھ اتحادی پارٹیاں بھی اس کے خلاف منظم ہوگئی ہیں۔ ہمیں تو یہ سمجھ میں نہیں آیا ایسے وقت میں جب یہ حکومت مہنگائی، بلیک منی اور بیرونی ممالک میں جمع پیسے کو واپس لانے ، جن لوک پال کے مسئلے سے گھری ہوئی تھی اسے بھی اسی وقت یہ ایف ڈی آئی کا مسئلہ لانا تھا؟ حکومت کی ٹائمنگ پر حیرانی ہورہی ہے۔ پہلے کرپشن، گھوٹالوں، مہنگائی کے مورچے پر یوپی اے سرکار کی ناکامیوں کا اثر اس کی رہنمائی کررہی کانگریس کی صحت پر بھی پڑنے لگا ہے۔ سرکار کے فیصلوں کے چلتے ایک کے بعد ایک نئی مشکل پیدا ہونے سے کانگریس پارٹی کے چہرے پر بھی بل پڑنے لگا ہے۔ پارٹی کے لئے سب سے بڑی پریشانی اگلے سال پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہیں۔ پنجاب اور جھارکھنڈ میں تو اگلے دو تین مہینے میں چناؤ ہونے والے ہیں۔ اس کے بعد اترپردیش جیسے پردیش کے ملک کے سامنے سب سے بڑی ریاست کا چناؤ ہے۔ جس میں پارٹی کی ہار جیت پر سکریٹری جنرل راہل گاندھی کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آیا کہ وزیر اعظم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ بغیر تیاری کے ہوم ورک کئے اتنے بڑے قدم کو اٹھایا جائے؟ اس لئے تعجب فیصلے پر نہیں بلکہ اس فیصلے کی ٹائمنگ پر ہے کہ مخالفین کی بارش کے بیچ سرکار نے ریٹیل کی پتنگ اڑانے کا جو خطرہ اٹھایا ہے ۔ بھارت کا منظم اور غیر منظم خوردہ کاروبار یقیناًبہت بڑا ہے۔ 2008-09 میں کل خوردہ بازار 17594 ارب روپے کا تھا۔2004-05 کے بعد سے اوسطاً 12 فیصدی سالانہ بڑھ رہا ہے۔ 2020ء تک 53517 ارب روپے کا ہونے کا امکان ہے۔ نبارڈ کی رپورٹ بتاتی ہے منظم ریٹیل قریب855 ارب روپے کا ہے۔ اس میں 200 فٹ کے چھوٹے اسٹور سے لیکر 25 ہزار فٹ تک کے ملٹی برانڈ ہائپر مارکیٹ(بگ بازار، اسپنسر، ایزی ڈے، ریلائنس ) وغیرہ آتے ہیں۔ خوردہ کاروبار میں تیزی سے پیداوار کے باوجود ریٹیل اس اربوں کے کاروبار میں پچھلی ایک دہائی میں صرف پانچ فیصدی حصہ لے پایا ہے۔ مگر اس پانچ فیصدی حصے نے قریب ایک کروڑ روزگار پیدا کئے ہیں جو2020ء تک بڑھ کر1.84 کروڑ ہوجائیں گے۔ خوردہ بازار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کمپنیوں کا خوف پرانا ہے۔ چھوٹے ملکوں میں چیزکوم، والمورٹ، ٹرانسکو وغیرہ جارحانہ طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ جیسے ریٹیل کے بڑے دوکانداروں کے اثر کی کہانیوں سے یہ ڈر اور بڑھ جاتا ہے کیونکہ منظم ریٹیل اگر صارفین کی سہولت اور بے کاروں کو روزگار کے پھول دیتا ہے تو بدلے میں غیر منظم اور چھوٹے تاجروں کے کاروبار کو کانٹوں میں گھیر لیتا ہے۔ بھارت کے معاملے میں اس خطرے کو کچھ حقائق کے تحت پرکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں کل ریٹیل کا قریب 61 فیصدی حصہ غذائی اجناس(اناج، دال، سبزی، چائے، کافی، انڈا، چکن، مسالے) خوردہ کاروبار کا حصہ ہیں۔ یہ قریب11 ہزار ارب روپے کا بیٹھتا ہے۔ اس کاروبار پر غیر منظم سیکٹر کا راج ہے۔ ریٹیل کو لیکر صارفین کے برتاؤ کو نبارڈ کے ایک تازہ سروے میں قریب سے پکڑا گیا ہے۔ دیش کے 23 شہروں میں مختلف عمر و نوجوان صارفین کے درمیان ہوا یہ سروے ظاہر کرتا ہے کہ میٹرو شہروں میں قریب 68 فیصدی اناج، دال، مسالے اور 80 سے90 فیصدی دال، سبزیاں، دودھ، گوشت، انڈے وغیرہ چھوٹی دوکانوں سے خریدے جاتے ہیں۔ دوسرے درجے کے شہروں میں یہ 79 فیصدی اور 92 سے98 فیصدی (پھل، سبزی ،دودھ )وغیرہ کے درمیان ہے یعنی ریلائنس، بگ بازار، اسپنسر، ای ڈی جے جیسے بڑی کمپنیوں غذائی اجناس کے معاملے میں صارفین کا دل نہیں جیت پائیں۔ غذائی اجناس کا کل کاروبار میں منظم ریٹیل دو فیصدی سے بھی کم ہے۔ نبارڈ کے سروے کے مطابق غیر منظم ڈیلر صارفین کے گھر سے اوسطاً280 میٹر کی دوری پر واقع ہیں جبکہ منظم سیکٹر کی دکانوں کی دوری اوسطاً ڈیڑھ کلو میٹر ہے۔منظم خوردہ سے مہنگائی گھٹے گی ایسا نہیں لگتا۔ بیشک کچھ ملکوں میں ایسا ہوا ہو لیکن ہمیں نہیں لگتا بھارت میں اس کا مہنگائی پر کوئی خاص اثر پڑنے والا ہے۔ زیادہ تر خوردہ سامان کی خرید مقامی منڈیوں ، تھوک تاجروں، ایجنٹوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے اور یہاں قیمتیں کم کرنے کی خاص گنجائش نہیں ہوتی۔ اس لئے غذائی اجناس کے معاملے میں منظم و غیر منظم سیکٹر کی قیمتوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارتیہ صارفین کا 80 فیصدی استعمال خرچ اور اس خرچ پر بڑھتی مہنگائی کو ریٹیل انقلاب سے کوئی مدد نہیں ملنے والی ہے۔ کسانوں کو بھی اس کا کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اسٹور اور سپلائی کا ڈھانچہ نہیں ہے۔
دیش کے درمیانے اور چھوٹے شہروں میں ریڑھی، ٹھیلہ لگانے، پھل سبزی بیچنے والے چھوٹے دوکاندار اور کسان اپنے مستقبل کو لیکر اگر فکر مند ہیں تو انہیں قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ماہرین کا کہنا ہے بھارت کے خوردہ کاروبار سے ساڑھے تین کروڑ لوگوں کو روزگار ملتا ہے ۔ اگر ایک خاندان میں پانچ افراد کو بھی بنیاد مانا جائے تو 18 کروڑ لوگ اس خوردہ کاروبار پر منحصر ہیں۔ سرکار کیلئے ان کا متبادل سسٹم ایک بہت بڑا سوال ہے۔ ان سوالوں کے باوجود منموہن سنگھ کی یوپی اے سرکار اپنے فیصلے پر اٹل ہے۔ ذرائع کے مطابق کانگریس کے اندر اور باہر تلخ مخالفت کے باوجود وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر کانگریس کور گروپ کی میٹنگ میں فیصلہ لیا گیا ہے کہ سرکار ایف ڈی آئی کے کیبنٹ کے فیصلے واپس نہیں لے گی۔ وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر ہوئی اس میٹنگ میں سونیا گاندھی، منموہن سنگھ، پرنب مکھرجی، آنند شرما، احمد پٹیل موجود تھے۔ سیاسی مخالفت کے چلتے ریٹیل میں غیر ملکی دوکانیں کھولنا آسان نظر نہیں آرہا ہے۔ مغربی بنگال ، یوپی کے بعد تاملناڈوکے ذریعے غیر ملکی دوکانوں کی اجازت نہ دینے کے اعلان سے مخالف ریاستوں کی تعداد 28 ہوگئی ہے۔ جن ریاستوں نے ایف ڈی آئی کی کھل کر مخالفت کی ان میں خاص ہیں اترپردیش، مدھیہ پردیش،گجرات، کرناٹک، تاملناڈو، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور چھتیس گڑھ وغیرہ۔ بھاجپا، انا ڈی ایم کے، ڈی ایم کے، لیفٹ پارٹی، سماج وادی پارٹی و ترنمول کانگریس سبھی اس کی مخالفت کررہی ہیں۔ سرکار کو چاہئے کہ وہ ایف ڈی آئی کے مسئلے کو اپنے وقار کا سوال نہ بنائے اور اپنے فیصلے کو ٹال دے۔ ابھی اس مسلے پر بحث بہت ضروری ہے۔ اس کے فائدے نقصان کا صحیح تجزیہ ہونا چاہئے تبھی یہ قابل قبول ہوگا۔ صرف پارلیمنٹ میں ہی نہیں پورے دیش میں اس مسئلے پر اتفاق رائے ہونا  ضروری ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, FDI in Retail, Manmohan Singh, Pranab Mukherjee, Rahul Gandhi, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!