مارن کا نمبرآگیا ،رتن ٹاٹا ابھی بھی بچے ہوئے ہیں
Published On 13th October 2011
انل نریندر
ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے میں کروناندھی اینڈ کمپنی کا ایک وکٹ گرنے والاہے۔ اے راجہ، کنی موجھی کے بعد اب سابق وزیر دیا ندھی مارن کا نمبر ہے۔ ان پر سی بی آئی کا شکنجہ کس چکا ہے۔ اس معاملے میں سی بی آئی نے باقاعدہ ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ دیاندھی مارن کے ساتھ ان کے بھائی کلاندھی مارن اور ملیشیاکے میکسس گروپ کے چیئرمین ٹی آنند کرشن اور سرمایہ کار رافلس مارشل سمیت تین کمپنیوں کو ملزم بنایا گیا ہے۔ ایتوار کو ایف آئی آر درج کرنے کے بعد جانچ ایجنسی نے پیر کے روز مارن کے دہلی اور چنئی میں رہائشی و دفاتر پر چھاپہ ماری کی تھی۔ ایف آئی آر کے مطابق وزیر مواصلات رہتے ہوئے دیاندھی مارن نے تارکین وطن ہندوستانی صنعت کار ایس شیو شنکرن پرایئر سیل کو بیچنے کے لئے دباﺅ ڈالا تھا۔ ایئرسیل کو اسپےکٹرم الاٹمنٹ کو مارن نے تقریباً دو سال تک لٹکائے رکھا اور اسپیکٹرم کرنیں تبھی دی گئیں جب شیو شنکرنے ایئر سیل کو ملیشیا کمپنی میکسس گروپ کو بیچ دیا۔ یہ ہینہیں 14 سرکل میں ایک ساتھ اسپیکٹرم معاملے کے بعد میکسس گروپ کی ساتھی کمپنی ایسٹرو نے مارن خاندان کی کمپنی سن میں براہ راست طور پر تقریباً600 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ الزام ہے کہ ایسٹرو نے سن کے براہ راست شیئر کو بازار کے بھاﺅ سے زیادہ قیمت میں خریدر کر درپردہ طور پرمارن کو رشوت دی تھی۔ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کی جانچ ابھی جاری ہے۔ عوامی رابطہ ایجنسی چلانے والی نیرا راڈیا اور ان کے روابط کی جانچ ابھی ادھوری ہے۔ نیرا راڈیا کے ٹیپ جب جنتا کے سامنے اجاگر ہوئے تو پورے دیش کو یہ جان کر دھکا لگا کے جو وزیر سرکار چلاتے ہیں جنتا انہیں سمجھتی ہے کہ انہیں دیش کے پردھان منتری چنتے ہیں وہ وزیراعظم کے ذریعے نہ چنے جاکر دیش کے بڑے صنعتی گھرانے انہیں بناتے ہیں۔ یہ گھرانے اپنے پسندیدہ لیڈروں کو وزیر بنوانے کےلئے کس طرح سے اور کس سطح تک جاکر لابنگ کرتے ہیں یہ نیرا راڈیا معاملے کے بعد سامنے آیا ہے۔ میڈیا معاملے میں دیش کے بڑے صنعتی گھرانے رتن ٹاٹا کا نام سامنے آیا ہے۔ راڈیا ٹاٹا گھرانے کے لئے کام کرتی ہیں اور ان کے سیاسی اور کاروباری مفادات کا اتنا خیال رکھتی ہیں لیکن یہ خلاصہ صرف ایک راڈیا کا تھا۔ راڈیہ ٹیپ معاملے کا دوسرا پہلو ٹوجی اسپیکٹرم مہا گھوٹالے سے جاکر جڑ گیا۔ اس مہا گھوٹالے میں ٹاٹا کے کردار پر کیگ نے اپنی رپورٹ میں تذکرہ کیا ہے۔ راڈیہ معاملے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سرکار یہ یقینی بناتی کہ مستقبل میں ایسا پیغام نہ جائے کہ سرکار کسی بھی صنعتی گھرانے سے متاثر ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ ٹوجی گھوٹالے کی جانچ سے کچ طرح سے رتن ٹاٹا کو باہر کیا جارہا ہے وہ پہلے سے طے ہے اور جنتا کے سامنے سرکار اور صنعتی گھرانے کی اس ملی بھگت کا معاملہ دوسرا جھٹکا ہے۔ یوپی اے سرکار کے لئے ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالہ کسی دلدل سے کم نہیں۔
سرکار اس سے نکلنے کے لئے بھلے ہی جتنی کوشش کرتی ہے اتنی ہی اس میں دھنستی چلی جارہی ہے۔ اس گھوٹالے میں روز نئے نئے نام سامنے آرہے ہیں۔ مارن بھائیوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوچکی ہے۔ اسی طرح ایسار گروپ کےروئیاں بندھوﺅں کو بھی سی بی آئی جلد اپنے شکنجے میں لینے والی ہے۔ ایسارسے سابق ریلائنس، یونیٹیک، سوان اور ویڈیو کون جیسی کمپنیوں کے بڑے افسرتہاڑ جیل میں پہنچ چکے ہیں۔ حال ہی میں وزارت مالیات کے ذریعے وزیر اعظم کے دفتر کو بھیجی گئی ایک چٹھی سے وزیر داخلہ پی چدمبرم کا نام بھی سامنےآیا ہے۔ حالانکہ اس گھوٹالے کے سوتردھار اے راجہ پہلے بھی اس طرف کئی باراشارہ کرچکے تھے لیکن راجہ کے الزام کے بدلے کی کارروائی کے تحت انہیں ملزم بنایا گیا ہے۔ لیکن اس مہا گھوٹالے کے معاملے میں سب سے بڑا تعجب یہ ہے کہ ٹاٹا کے کردار اور ان سبھی صنعتی گھرانوں سے زیادہ وسیع اور واضح ہے لیکن ابھی تک کوئی جانچ یا چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی ہے؟ ٹاٹا پر اسگھوٹالے میں کافی اہم کردار نبھانے کا نہ صرف الزام ہے بلکہ کافی پختہ ثبوت بھی ہے لیکن رتن ٹاٹا کا سرکار سے اپوزیشن تک میں کتنا اثر ہے یہ اسی سے صاف ہے کہ ٹاٹا گھرانہ اس مہا گھوٹالے کی جانچ کے دائرے سے تقریباً باہر ہے۔ اس مہا گھوٹالے میں ٹاٹا کے کردار پر سب سے پہلے انگلی کیگ نے اٹھائی۔ کیگ نے اپنی رپورٹ میں ٹاٹا ٹیلی سروس کی وجہ سے سرکاری محصول کو 19074 کروڑ روپے کا نقصان ہونے کا دعوی کیا ہے۔ کیگ نے اپنی رپورٹ میں ٹاٹا کے کردار پرتفصیل سے بحث کی ہے۔ ٹاٹا کے اس مہا گھوٹالے میں کردار دنیا جانتی ہے کہ اے راجہ کو ٹیلی کمیونی کیشن وزیر بنانے کےلئے ٹاٹا نے نیرا راڈیہ کے ذریعے سے اس طرح سے لابنگ کروائی کے سابق وزیرمواصلات دیاندھی مارن کے ٹاٹا سے تعلق اچھے نہیں تھے اور یوپی اے کی پہلی
پاری میں ٹاٹا کو مارن کا تعاون نہیں ملا تھا۔ آخر کار رتن ٹاٹا نہیں چاہتے تھے کہ دیاندھی مارن پھر سے وزیر مواصلات بنیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ٹاٹا نے صرف لابنگ ہی نہیں کی بلکہ ایک طریقے سے رشوت کے طور پر ڈی ایم کے چیف کروناندھی کوچنئی میں کروڑوں روپے کی زمین تحفہ میں دے دی۔ بعد میں اس زمین پر عمارت تعمیر کروائی۔ اس سب کا اثر تھا کہ اے راجہ کے وزیررہتے رتن ٹاٹا کو 2 جولائی کو اسپیکٹرم دینے کےلئے وزارت میں کسی بھی قاعدے کی پرواہ نہیں کی۔ ہمارا خیال ہے کہ رتن ٹاٹا کی تفصیل سے جانچ ہونی چاہئے۔ اگر ایسا نہیںہوتا تو یہ جانچ اور گھوٹالے کا پورا پردہ فاش نہیں ہوگا۔ نیرا راڈیہ کے ٹیپوں کی تو پتہ نہیں کیوںجانچ اور ان پر کارروائی نہیں ہورہی ہے؟
2G, Anil Narendra, CBI, Daily Pratap, Dayanidhi Maran, DMK, Karunanidhi, Ratan Tata, Tata Teleservices, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں