کالادھن: نگرانی سپریم کورٹ کرے یہ حکومت کو منظور نہیں
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily |
Published On 20th July 2011
انل نریندر
بدعنوانی اور کالا دھن کے مسئلے پر انا ہزارے اور بابا رام دیو کی چنوتیوں سے لڑ رہی منموہن حکومت کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا تھا جب سپریم کورٹ نے کالے دھن سے وابستہ سارے معاملوں کی جانچ کیلئے ایک اسپیشل ٹاسک فورس تشکیل کردی تھی۔ اس خصوصی جانچ ٹیم کی سربراہی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس بی ۔ پی جیون ریڈی کریں گے اور ایک دوسرے ریٹائرڈ جج ایم ۔بی شاہ اس کے ممبر ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حسن علی اور کیلاش ناتھ کپاڈیہ سمیت کالے دھن سے وابستہ سبھی معاملوں کی جانچ اس میں آگے کی کارروائی و مقدمہ چلانے کی ذمہ داری اس مخصوص ٹیم کی ہوگی۔ لیکن مرکزی حکومت کو لگتا ہے یہ منظور نہیں ہے کہ کالے دھن کی جانچ سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہو۔ تبھی تو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اس حکم پر نظرثانی کرنے کیلئے عرضی دائر کی ہے۔ حکومت نے اس فیصلے کو منتظمہ اختیارات میں عدلیہ کا قبضہ مانتے ہوئے کہا ہے کہ ایڈمنسٹریٹو اور عدلیہ کے الگ الگ اختیارات ہیں اور بڑی عدالت کا فیصلہ ان اصولوں کے منافی ہے۔ عرضی میں آگے کہا گیا ہے کہ عدالت کا یہ کہنا سرا سر غلط ہے کہ کالا دھن واپس لانے کیلئے سرکار زور دار کوشش نہیں کررہی ہے۔ ایسا ہوتا تو سرکار اس معاملے میں اعلی اختیار یافتہ کمیٹی تشکیل نہ کرتی۔یہ ایک تاریخی معاملہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ سرکار کی عرضی پر فیصلہ کرتے وقت جہاں عدالت کو کچھ انتہائی قانونی پہلوؤں کا خیال رکھنا ہوگا وہیں عدالت سرکار سے یہ سوال بھی کرسکتی ہے کہ آخر کار عدالت کو اس طرح کا حکم کیوں پاس کرنا پڑا۔ سرکار نے بھلے ہی نظرثانی عرضی دائر کرنا ضروری سمجھا کیونکہ کیبنٹ میں کچھ اہم ماہر قانون بھی شامل ہیں لیکن اس سے سرکار کے طریقہ نظام جانچ ایجنسیوں کے تئیں اس کے رویئے اور کچھ جانچ ایجنسیوں کے کردار پر بھی بحث چھڑ سکتی ہے۔
کالا دھن کا معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دیش کا جائز پیسہ ناجائز طریقوں سے بیرونی ممالک میں جانا تو تشویش کا موضوع ہے ہی لیکن ساتھ میں اس کے نتائج قومی سلامتی کے معاملوں سے وابستہ ہیں، جیسا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے ، سپریم کورٹ نے جو حکم دیا تھا اس کا ابھی تک کچھ ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔ دراصل یہ بالکل الٹ ہورہا ہے۔ اب تک ایس آئی ٹی تو ہوا نہیں ہے وزارت مالیات کی طرف سے تشکیل کمیٹیاں بھی کام نہیں کرپارہی ہیں۔ اور اب سرکار کے ذریعے اپیل دائر کرنے سے معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔ اب یہ کمیٹیاں مقررہ وقت میں اپنی آڈٹ رپورٹ نہیں دے سکیں گی۔ جب تک سپریم کورٹ اس بارے میں اپنا فیصلہ نہیں سناتا یہ کام رکاوٹ ثابت ہوگا۔ یہ ہی حال کالی کمائی پر قائم دوسری کمیٹی کا بھی ہو گیا ہے۔ یہ کمیٹی سی بی ڈی ٹی کے چیئرمین کی سربراہی میں بنائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے حکم میں اس کمیٹی کا بھی ذکر ہے۔ اس کمیٹی کو کالے پیسے پر روک لگانے کیلئے موجودہ پن قانونوں میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بارے میں اس کوتجویز دینے کو کہا گیا تھا۔ کمیٹی نے اپنی پہلی میٹنگ میں عوام سے تجاویز مانگی تھی اور تین ہفتے میں چار ہزار تجاویز کی کاپیاں آئیں لیکن اب یہ معاملہ بھی لٹکنے کا ڈر ہے۔ سرکار سپریم کورٹ کے احکامات کو ہر حالت میں بلاک کرنے میں تلی ہوئی ہے ایسا لگتا ہے۔
کالا دھن کا معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دیش کا جائز پیسہ ناجائز طریقوں سے بیرونی ممالک میں جانا تو تشویش کا موضوع ہے ہی لیکن ساتھ میں اس کے نتائج قومی سلامتی کے معاملوں سے وابستہ ہیں، جیسا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے ، سپریم کورٹ نے جو حکم دیا تھا اس کا ابھی تک کچھ ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔ دراصل یہ بالکل الٹ ہورہا ہے۔ اب تک ایس آئی ٹی تو ہوا نہیں ہے وزارت مالیات کی طرف سے تشکیل کمیٹیاں بھی کام نہیں کرپارہی ہیں۔ اور اب سرکار کے ذریعے اپیل دائر کرنے سے معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔ اب یہ کمیٹیاں مقررہ وقت میں اپنی آڈٹ رپورٹ نہیں دے سکیں گی۔ جب تک سپریم کورٹ اس بارے میں اپنا فیصلہ نہیں سناتا یہ کام رکاوٹ ثابت ہوگا۔ یہ ہی حال کالی کمائی پر قائم دوسری کمیٹی کا بھی ہو گیا ہے۔ یہ کمیٹی سی بی ڈی ٹی کے چیئرمین کی سربراہی میں بنائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے حکم میں اس کمیٹی کا بھی ذکر ہے۔ اس کمیٹی کو کالے پیسے پر روک لگانے کیلئے موجودہ پن قانونوں میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بارے میں اس کوتجویز دینے کو کہا گیا تھا۔ کمیٹی نے اپنی پہلی میٹنگ میں عوام سے تجاویز مانگی تھی اور تین ہفتے میں چار ہزار تجاویز کی کاپیاں آئیں لیکن اب یہ معاملہ بھی لٹکنے کا ڈر ہے۔ سرکار سپریم کورٹ کے احکامات کو ہر حالت میں بلاک کرنے میں تلی ہوئی ہے ایسا لگتا ہے۔
Tags: Anil Narendra, Anna Hazare, Black Money, Corruption, Daily Pratap, Hasan Ali Khan, Supreme Court, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں