ہلیری کلنٹن کاکامیاب بھارت دورہ؟
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا بھارت دورہ امریکی نقطہ نظر سے بہت کامیاب رہا ہے۔ ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی امریکہ نے ہندوستان کو پاکستان اسپانسر دہشت گرد ی پر ہمدردی کے کچھ لفظ کہہ کر اپنا پلا جھاڑ لیا۔ ہلیری کلنٹن کا دورہ ممبئی تازہ بم دھماکوں کے فوراً بعد ہوا ہے اس لئے بھی بھارت کے پاس پاک اسپانسر دہشت گردی کو ختم کرنے پر امریکہ کی کھلی حمایت پانا ضروری تھا، وقت بھی تھا لیکن پاکستان امریکہ کی مجبوری ہے۔آج بھی وہ پاکستان پر کچھ حد تک منحصر ہے۔ جب تک امریکہ افغانستان میں موجود ہے تب تک امریکہ پاکستان سے نہیں بگاڑے گا۔ یونہی لڑتا جھگڑتا رہے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان نوٹنکی جاری رہے گی۔ وقت کی پکار تھی کے ہلیری پاکستان کو سخت پیغام دیتیں لیکن دہشت گردی پر کڑک مزاجی دکھا رہا امریکہ دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہوں کو لیکر سنبھل کر بات کرتا نظر آیا۔ بھارت دورے پر تشریف لائیں ہلیری کلنٹن نے منگل کے روز کہا تھا کہ پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف قدم اٹھانے کے لئے جتنا ممکن ہوسکا اتنا دباؤ بنایا جائے گا۔ لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ حیدر آباد ہاؤس میں ہلیری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت کے ساتھ تعاون بڑھانے کی یقین دہانی تو کرائی وہیں یہ کہنے سے بھی نہیں چوکیں کہ اس لڑائی میں پاکستان بھی امریکہ کا اہم ساتھی ہے۔ امریکہ بھارت پر پاکستان سے امن مذاکرات جاری رکھنے کا اکثر دباؤ بناتا رہتا ہے۔ اس کے نقطہ نظر سے ہلیری نے یہ کہہ کر کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری بات چیت سے ہم خوش ہیں، امریکی موقف میں پاکستان دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اہم ساتھی ہے۔ دہشت گردوں نے مسجدوں ، سرکاری عمارتوں پر حملہ کرکے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو موت کی نیند سلایا ہے۔ یہ دلیل دے کر کلنٹن نے بھارت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ امریکہ کا دوہرا چہرہ ایک بار پھر بھارت کے سامنے آگیا ہے۔ وہ دوہرے پیمانے رکھتا ہے۔ اس کے لئے ان کے اپنے مفادات بالاتر ہیں۔ امریکہ نے سول ایٹمی معاہدے کو پوری طرح لاگو کرنے کی یقین دہانی کے ذریعے ہندوستان کو بھلے ہی راحت دینے کی کوشش کی ہے لیکن نیوکلیائی حادثہ قانون پر اختلافات کے اشارے بھی دے دئے ہیں۔ ہلیری نے منگل کو کہا کہ بھارت کے ساتھ سول ایٹمی معاہدے کو مکمل طور سے عمل درآمد کیا جائے گا۔ لیکن ایٹمی حادثے سے ہونے والے نقصان کی تکمیل کے معاملے میں بھارت کو اپنے قانون کو بین الاقوامی قواعد کے مطابق کھرا اتارنا ہوگا۔ ہلیری نے کہا کہ بھارت کو اپنے معاوضے قانون کو بین الاقوامی قواعد کے مطابق کرنے کیلئے یو این کنونشن کی تصدیق کی خانہ پوری کرنی ہوگی۔
گذشتہ روز ہلیری کلنٹن نے کہا کہ پاکستان سے ممبئی حملے کے سازشیوں کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ انہوں نے یہ کہنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی کہ پاکستان کے سلسلے میں امریکہ اور بھارت کیا کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک حد ہوتی ہے، اس کا سیدھا مطلب ہے کہ امریکی انتظامیہ پاکستان پر اس کے لئے دباؤ بنانے کا کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتابلکہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی کی سرگرمیوں پر روک لگائے اور بھارت مخالف سرگرمیوں کو ترک کرے۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاک اسپانسر دہشت گردی کی لڑائی میں امریکہ بھارت کا ساتھ دے گا تو وہ غلط فہمی میں ہے اور ہلیری نے اسے صاف کردیا ہے کہ ہمیں اپنی لڑائی خود لڑنی پڑے گی۔بیشک پاکستانی فوج اپنے مغربی حصے میں طالبان سے لڑنے کی نوٹنکی کر رہی ہو لیکن مشرقی حصے میں تو اس کی مدد سے دہشت گردی کے کیمپ چل رہے ہیں۔ بھارت پر حملے کئے جاتے ہیں، کیا امریکہ کو اس کی جانکاری نہیں ہے؟ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ انجان بن جاتا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ اس کے سامنے اس کے اپنے باہمی مفادات ترجیح رکھتے ہیں۔ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں پاکستان، بھارت کے خلاف کیا کرتا ہے؟ امریکہ کے اس رویئے سے بار بار باآور ہونے کے باوجود یہ ہی موقف رہا ہے کہ بھارت ان دہشت گردی کے اڈوں کو تباہ نہ کرے۔ اگر امریکہ کا دباؤ نہ ہوتا تو شاید اب تک بھارت کم سے کم کچھ دہشت گرد کیمپوں پر سرجیکل اسٹرائک کر ہی دیتا۔ کب تک بھارتیہ لیڈر یہ امید پالے رکھیں گے کہ پاکستان کی آتنک وادی پالیسیوں پر امریکہ ہماری حمایت کرے گا؟ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ بھارت کی پاکستان کے تئیں پالیسی آخر کیا ہے؟ کبھی اس کو گالی دیتا ہے تو کبھی دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے؟ کیا یہ محض اپنے امریکی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے ہوتا ہے ۔ امریکہ کی ترجیحات واضح ہیں۔ ہمیں اپنی پوزیشن سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنی جلدی یہ بات ہندوستانی لیڈروں کو سمجھ میں آجائے اتنا ہی دیش کے لئے اچھا ہوگا۔ کل ملاکر ہلیری کلنٹن کا دورۂ بھارت امریکی نقطہ نظر سے کامیاب رہا ہے اور بھارت کو ایک بار پھر جھنجھنا تھما دیا گیا ہے۔
گذشتہ روز ہلیری کلنٹن نے کہا کہ پاکستان سے ممبئی حملے کے سازشیوں کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ انہوں نے یہ کہنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی کہ پاکستان کے سلسلے میں امریکہ اور بھارت کیا کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک حد ہوتی ہے، اس کا سیدھا مطلب ہے کہ امریکی انتظامیہ پاکستان پر اس کے لئے دباؤ بنانے کا کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتابلکہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی کی سرگرمیوں پر روک لگائے اور بھارت مخالف سرگرمیوں کو ترک کرے۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاک اسپانسر دہشت گردی کی لڑائی میں امریکہ بھارت کا ساتھ دے گا تو وہ غلط فہمی میں ہے اور ہلیری نے اسے صاف کردیا ہے کہ ہمیں اپنی لڑائی خود لڑنی پڑے گی۔بیشک پاکستانی فوج اپنے مغربی حصے میں طالبان سے لڑنے کی نوٹنکی کر رہی ہو لیکن مشرقی حصے میں تو اس کی مدد سے دہشت گردی کے کیمپ چل رہے ہیں۔ بھارت پر حملے کئے جاتے ہیں، کیا امریکہ کو اس کی جانکاری نہیں ہے؟ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ انجان بن جاتا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ اس کے سامنے اس کے اپنے باہمی مفادات ترجیح رکھتے ہیں۔ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں پاکستان، بھارت کے خلاف کیا کرتا ہے؟ امریکہ کے اس رویئے سے بار بار باآور ہونے کے باوجود یہ ہی موقف رہا ہے کہ بھارت ان دہشت گردی کے اڈوں کو تباہ نہ کرے۔ اگر امریکہ کا دباؤ نہ ہوتا تو شاید اب تک بھارت کم سے کم کچھ دہشت گرد کیمپوں پر سرجیکل اسٹرائک کر ہی دیتا۔ کب تک بھارتیہ لیڈر یہ امید پالے رکھیں گے کہ پاکستان کی آتنک وادی پالیسیوں پر امریکہ ہماری حمایت کرے گا؟ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ بھارت کی پاکستان کے تئیں پالیسی آخر کیا ہے؟ کبھی اس کو گالی دیتا ہے تو کبھی دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے؟ کیا یہ محض اپنے امریکی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے ہوتا ہے ۔ امریکہ کی ترجیحات واضح ہیں۔ ہمیں اپنی پوزیشن سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنی جلدی یہ بات ہندوستانی لیڈروں کو سمجھ میں آجائے اتنا ہی دیش کے لئے اچھا ہوگا۔ کل ملاکر ہلیری کلنٹن کا دورۂ بھارت امریکی نقطہ نظر سے کامیاب رہا ہے اور بھارت کو ایک بار پھر جھنجھنا تھما دیا گیا ہے۔
Tags: Anil Narendra, Daily Pratap, Vir Arjun, America, Hillary Clinton, India, Pakistan, Terrorist,
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں