جب ووٹ بینک کی سیاست دیش کی سلامتی پر بھاری پڑے



Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 19th July 2011
انل نریندر
تازہ ممبئی حملوں میں کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ کا رد عمل ٹھیک اسی لائن پر آیا ہے جس کی ان سے امید رکھی جاسکتی ہے۔ بلکہ تعجب تو تب ہوتا جب انہیں اس تازہ بم کانڈ میں ہندو آتنکیوں کا ہاتھ نظر نہ آتا۔تبھی حیرت نہیں ہوئی جب دگوجے سنگھ نے آر ایس ایس پر نشانہ لگاتے ہوئے سنیچر کو کہا کہ ممبئی دھماکوں میں ہندو تنظیموں کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے ابھی ممبئی دھماکوں میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں لیکن جانچ ایجنسیوں کو سبھی نقطوں سے جانچ کرنی چاہئے۔ دگوجے سنگھ نے کہا کہ میں آر ایس ایس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے ثبوت دے سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی اس بات سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ وہ دیش میں ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے ہندو تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ دگوجے سنگھ جو کہتے ہیں وہ ان کی اپنی سوچ اور حکمت عملی کے تحت ہورہا ہے، کیونکہ ان کا 10 سال کا سیاسی بنواس ختم ہونے جارہا ہے اس لئے وہ اپنی جڑیں سیاست میں جمانا چاہتے ہیں اس لئے انہوں نے اینٹی ہندو لائن اپنا لی ہے تاکہ اقلیتی ووٹ بینک میں اپنی پیٹ بنا سکیں۔ لیکن جیسے ان کے متنازعہ بیانات کی کانگریس اعلی کمان حمایت کرتی ہے اس سے صاف لگتا ہے کہ دگی راجہ کو اعلی کمان کی پوری حمایت حاصل ہے۔ ممبئی میں ہوئے سلسلہ وار دھماکوں کو دگوجے سنگھ نے جس طرح سے آناً فاناً میں فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے اس میں ہمیں امید تھی شاید پارٹی ہائی کمان انہیں سخت پھٹکار لگائے اور اپنے آپ کو اس بیان سے الگ کرے۔ لیکن نہ صرف خاموشی اختیار کر سینئر لیڈر شپ نے اسے اپنی خاموش منظوری دے دی بلکہ یہ بھی جتا دیا کہ ہندو تنظیموں کی زور دار مخالفت اور اس کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ دگوجے سنگھ محض مہرے ہیں۔ ابھی تک دگوجے سنگھ کے بیان پر کانگریس ٹوکا ٹاکی کیا کرتی تھی لیکن جس طرح سے کانگریس کے ترجمان شکیل احمد نے کھلے طور پر دگوجے سنگھ کی حمایت کی ہے اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ مسلم ووٹ کو پٹانے کے لئے دگوجے سنگھ آج تک جو بھی بولتے رہے ہیں وہ کانگریس لیڈر شپ کی سوچی سمجھی مرحلے وار پالیسی تھی اور ایسے بیہودہ اور بے تکے بیانات کے لئے دگوجے سنگھ کو باقاعدہ نوازا گیا۔ انہیں اس پردیش کا انچارج بنا دیا گیا جہاں کانگریس کی نظر اقلیتی ووٹ بینک پر ٹکی ہوئی ہے۔ اس وقت بھی دگوجے سنگھ اترپردیش اور آسام جیسی مسلم آبادی والے پردیشوں کے انچارج جنرل سکریٹری ہیں۔
یہ بہت شرم کی بات ہے ممبئی دھماکے جیسے مسئلے پر دگوجے سنگھ جیسے سلجھے لیڈر سیاستداں ووٹ بینک کی پالیسی کا کھیل کھیلنے سے باز نہیں آتے۔ ہمارے دیش کے نیتا مطلبی سیاست مفاد کی گھیرے میں کس حد تک گرسکتے ہیں۔ وہ لاشوں پر سیاست کرنے کے ساتھ ساتھ ان مسائل سے بھی فائدہ اٹھانے کی تاک میں رہتے ہیں جو قوم کے لئے شرمندگی کا سبب بنتے ہیں۔ ممبئی بم دھماکوں کے بعدہندوستان بین الاقوامی مورچے پر یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں رہ گیا کہ وہ دہشت گردی سے اپنے بلبوتے پر لڑ سکتا ہے ۔ مرکزی لیڈرشپ اس واقعات کا کیسے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے اس کیلئے بے چین ہے اور انہیں اس بات کی بھی قطعی پرواہ نہیں کہ پاکستان جیسے دیش اس بات کا کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جہاں تک آر ایس ایس کی دیش کے تئیں وفاداری کا سوال ہے تو کانگریس کے سب سے قد آور لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو بھی آن ریکارڈ یہ کہہ چکے ہیں کہ آر ایس ایس کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کس اس طرح کے اوٹ پٹانگ بیان اگلے سال ہونے والے یوپی اسمبلی چناؤ سے وابستہ ہوسکتے ہیں۔ اس لئے بھاجپا بھی میدان میں کود پڑی ہے۔ سنیچر کو بھاجپا لیڈر شاہنوازحسین نے دگوجے کے بہانے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو بھی لپیٹ لیا ہے۔ راہل سے دگوجے سنگھ کی قربت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ راہل خود جو نہیں کرپاتے وہ دگوجے سنگھ سے کہلواتے ہیں۔ دیش دہشت گردی سے لڑ رہا ہے ایسے میں دگوجے سنگھ کا آر ایس ایس پر الزام لگانا سوائے گندی اور بیہودہ سیاست کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ بھاجپا کے دوسرے سینئر لیڈر مختار عباس نقوی کہتے ہیں کہ دگوجے سنگھ کو بحرے عرب کے کنارے لے جائیں اور ان کے جسم میں موجودہ لادن کی شیطانی روح کو بھگانے کیلئے کچھ جھاڑ پھونک کروائیں۔ دگوجے سنگھ کو زبانی ڈائریا ہوگیا ہے۔ ان کی اپنی زبان اور الفاظ پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ کوئی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ دگوجے سنگھ زہریلے بیان کی چھوٹ اس امید سے دی گئی ہے تاکہ ہندو تنظیموں کو بے عزت کرنے والے ان کے بیانوں کے ذریعے مسلم سماج کے ووٹ آسانی سے حاصل کئے جاسکیں؟ کانگریس کی اس سوچ سے یہ صاف ہے کہ اس کی نظر میں مسلم سماج تب اس کا ووٹ بینک بنے گا جب اسے ہندو تنظیموں سے ڈرایا جائے گا۔
اسے بد قسمتی ہی کہا جائے گا کہ دہشت گردی جیسے حساس ترین مسئلے پر اس طرح کی گھٹیا ووٹ بینک کی سیاست ہورہی ہے۔ کیا یہ جانچ ایجنسیوں کو غلط سمت میں جانچ کرنے اور انہیں جان بوجھ کر بھٹکانے کا کام نہیں ہے؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ خود وزیر داخلہ پی چدمبرم کہہ چکے ہیں بھگوا آتنک واد دیش کے لئے ایک بڑی چنوتی بن چکا ہے۔ آتنک وادی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ ایک آئیڈیالوجی ہے اور یہ ممکن ہے کہ کچھ مٹھی بھر ہندو بھی اس کے شکار ہوں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ آپ سارے ہندو سماج کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں اور انہیں بدنام کریں۔ جیسا کہ آپ مٹھی بھر مسلم دہشت گردوں کے سبب پورے مسلم سماج کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ اگر دگوجے سنگھ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو جانچ ایجنسیوں کو بتائیں تاکہ وہ اس کی باریکی سے چھان بین کرسکیں۔
Tags: Anil Narendra, BJP, Bomb Blast, Daily Pratap, Digvijay Singh, Hindu Terrorism, Mumbai, Terrorist, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟