راج واپس لانے کی لڑائی لڑ رہے ہیں دگّی راجہ!

دگوجے سنگھ دیش کے ان گنے چنے لیڈران میں سے ہیں جو سیاست میں پانچ دہائی سے زیادہ وقت گذار چکے ہیں ۔سیاست میں دگّی راجہ کے نام سے مشہور دگوجے سنگھ 77 برس کے ہیں ۔اس عمر میں بھی راج گڑھ لوک سبھا سیٹ سے بطور کانگریس امیدوار پیدل گاو¿ں گاو¿ں کمپین کررہے ہیں ۔ان کی فٹنس کا صرف وہی حمایتی نہیں ہے بلکہ مخالف بھی تعریف کرتے ہیں ۔2014 سے یہ سیٹ بھاجپا کے پاس ہے ۔راگھو گڑھ کے راج پریوار میں پیدا ہوئے دگوجے سنگھ کے والد راجہ بل بھدر سنگھ کو ہندو مہاسبھا کا قریبی مانا جاتا تھا کہ دگوجے سنگھ جنگ سنگھ میں اپنی سیاسی پاری شروع کریں گے لیکن انہوں نے کانگریس کا انتخاب کیا ۔صرف 22 سال کی عمر میں راگھو گڑھ نگر پریسد کونسل کے چیئرمین کے عہدے سے سیاست کی شروعات کرنے والے دگوجے سنگھ کو جن سنگھ میں شامل ہونے کی کئی پیشکش ملیں لیکن وہ ہمیشہ جن سنگھ کی ان آفر کو مسترد کرتے رہے ۔دگوجے سنگھ کے والد کی پردیش کانگریس نیتا گووند نارائن سنگھ سے دوستی تھی اس لئے دگوجے سنگھ کا رجحان کانگریس کی طرف چلا گیا اور وہ 1977 میں پہلی بار جیت کر اسمبلی پہونچے تھے ۔اس کے بعد وہ مسلسل چار بار ایم ایل اے رہے اس بیچ میں انہیں یوتھ کانگریس صدر کی ذمہ داری دی گئی ۔سال 1980 میں چناو¿ جیتنے کے بعد وہ ارجن سنگھ کیبنیٹ میں وزیر بنے ۔1984 اور 1991 میں راج گڑھ سیٹ سے چناو¿ جیت کر لوک سبھا پہونچے ۔اپنے بیانوں کی وجہ سے عموماً سرخیوں میں چھائے رہنے دگّی راجہ 1993 سے 2003 تک مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ رہے ۔اس کے بعد پارٹی کو پردیش میں اقتدار تک پہونچانے کے لئے پورے 15 سال تک انتظار کرنا پڑا ۔2018 کے چناو¿ میں کملناتھ وزیراعلیٰ بنے لیکن پارٹی میں بغاوت کے سبب 2020 میں اقتدار ایک بار پھر بھاجپا کے ہاتھ آگیا ۔اس درمیان دگوجے سنگھ کانگریس تنظیم میں کئی ذمہ داریاں سنبھالتے رہے ۔2014 میں پارٹی نے انہیں راجیہ سبھا میںبھیج دیا ۔راج گڑھ سیٹ پر دگوجے سنگھ کا مقابلہ 2014 اور 2019 میں جیت درج کرچکے شیٹھ مل ناگرسے ہے ۔2019 میں ناگر کو 65 فیصدی ووٹ ملے تھے جبکہ کانگریس کی مونا سستانی صرف 31 فیصدی ووٹ حاصل کر پائی تھیں ۔دگوجے سنگھ اس سے پہلے اس سیٹ سے 1984 ، 1989 اور 1991 میں چناو¿ لڑ چکے ہیں ۔1989 کا چناو¿ وہ بھاجپا کے پیارے لال کھنڈیل وال سے ہار گئے تھے ۔سال 1994 میں وزیراعلیٰ بننے کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا اس کے بعد ضمنی چناو¿ میں دگوجے سنگھ کے چھوٹے بھائی لکشمن سنگھ چناو¿ جیت کر پارلیمنٹ پہونچے تھے ۔پورے 33 سال بعد راج گڑھ سے لوک سبھا چناو¿ لڑنے کی دگوجے سنگھ کی کہانی بھی دلچسپ ہے ۔و ہ اس بار چناو¿ لڑنے کے حق میں نہیں تھے لیکن جب پارٹی نے طے کیا کہ سبھی سینئر لیڈروں کو چناو¿ میدان میں اترنا ہوگا تو دگوجے سنگھ نے پارٹی کا فیصلہ قبول کرنے میں دیری نہیں کی ۔وہی مدھیہ پردیش کانگریس کے کئی سینئر لیڈروں نے چناو¿ میںہار کے ڈر سے اپنے ہتھیار ڈال دئیے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟