ہم تو تین ہی مانگ رہے ہیں !

اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بدھ کو ایودھیا میں رام للا کی پران پرتیشٹھا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کاشی اور متھرا کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ایودھیا کا اشو جب لوگوں نے دیکھا تو نندی بابا نے بھی انتظار کئے بغیر رات میںبیری کیٹ تڑوا ڈالے اور اب ہمارے کرشن کنہیا بھی وہاں پدھارنے والے ہیں ۔وزیراعلیٰ نے کسی کا نام لئے بغیر کہا پانڈوں نے کوروں سے صرف پانچ گاو¿ں مانگے تھے لیکن سینکڑوں برسوں سے یہاں کی آستھا صرف تین کاشی ،متھرا ، کیلئے بات کررہی ہیں ۔یوگی آدتیہ ناتھ نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے سوال کھڑا کیا کہ سناتن دھرم کی آستھا کے تین اہم مقامات ایودھیا ،کاشی اور متھرا کا وکاس آخر کس منشاءسے روکا گیا تھا ۔یوگی آدتیہ ناتھ نے اسمبلی میں گورنر کے ایڈریس پر سپریا کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا صدیوں تک ایودھیا بری منشاءکیلئے ایک ابھیشاپ تھی اوروہ ایک منظم مقصد پر بھی جھیلتی رہی ۔لوگ آستھا اور جن بھاو¿ناو¿ں کیساتھ ایسا کھلواڑ ممکنہ طور پر دوسری جگہ دیکھنے کو نہیں ملا ہوگا ۔ایودھیا کے ساتھ نا انصافی ہوئی وزیراعلیٰ نے کہا بھارت کے اندر لوگ آستھا کی بے عزتی ہو ،اکثری سماج گڑ گڑائے تھے ۔یہ پہلی بار دیکھنے کو ملا ۔دنیا دیکھ رہی ہے آزاد بھارت میں یہ کام پہلے ہونا چاہیے تھا ۔سال 1947 میں شروع ہونا چاہیے تھا اور اس آستھا کیلئے بار بار درخواست لگتی رہی ۔انہوں نے کہا ہم نے جو کہا سو کیا ۔جو عہد کیا اس کی تکمیل بھی کی تھی ۔ہم صرف بولتے نہیں ہیں کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا ہم مانتے ہیں کہ مندر کا جھگڑا عدالت میں تھا لیکن وہاں کی سڑکوں کو چوڑا کیا جاسکتا تھا وہاں کے گھاٹوں کی تزئین کاری کی جاسکتی تھی ۔ایودھیا کے باشندوں کو بجلی سپلائی کی جاسکتی تھی وہاں صاف ستھرا نظام تو قائم کیا جاسکتا تھا۔وہاں ہیلتھ کی بہتر سہولیات دی جاسکتی تھیں۔وہاں ہوائی اڈہ بنایا جاسکتا تھا ۔سوال یہ ہے کہ بھاجپا اس مسئلے پر کیسے آگے بڑھے گی ۔اس سوال پر پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا جب ہم رام مندر کی تجویز لائے تھے تب حالات الگ تھے ۔ہم اپوزیشن پر تھے اس لئے ہمیں لمبی عدالتی کاروائی سے ہو کر گزرنا پڑا ۔اب ہم مرکز اور یوپی دونوں جگہ سرکار میں ہیں ۔ہم مسلم فریقین سے بات کرکے حل نکالنے کی کوشش کریں گے ۔یوپی سرکار جنم بھومی کو لیکر قانون بھی بنا سکتی ہے ۔عدالت جانے کا متبادل سب سے آخری ہوگا ۔شری کرشن جنم بھومی کو لیکر پرستاو¿ کو لیکر پارٹی کے نیتاو¿ں کا کہنا ہے کہ ایک بڑا عزم ہے ۔اور آنے والے کچھ برس میں یہ پارٹی کی سینئر لیڈر شپ کے اقتدار بیلنس کا پہلو بن سکتا ہے ۔ایک خیال یہ ہے کہ پارٹی کے قومی صدر کی طرف سے پرستاو¿ لایا جائے ۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ریاستی یونٹ پرستاو¿ لائے جس کی توسیق نیشنل کونسل کرے ۔تیسرا خیال یہ ہے کہ دھارمک یا کلچر انجمنوں کی طرف سے اس بارے میں پرستاو¿ لا کر بھاجپا سے مانگ پوری کرنے کو کہا جائے اور پھر اس پر نیشنل کونسل کی مہر لگائی جائے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟