وہائٹ پیپر بنام بلیک پیپر!

کانگریس اور بی جے پی کے درمیان تازہ بیان بازی میں معیشت ایک اہم اشو بن گئی ہے ۔سال 2004 سے 2014 کے درمیان کانگریس قیادت والی یونائیٹڈ پروگریسو الائنس(یو پی اے)سرکار کے دوران اقتصادی سیکٹر میں پرفارمنس پر بھاجپا کی قیادت والی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) نے ایک وہائٹ پیپر جاری کیا ہے اس میں اس نے 2004 سے 2014 تک کے وقت کو ایک تباہی کا دور کہا ہے وہیں اس کا موازنہ 2014 سے لیکر 2023 کے دور سے کیا ہے ۔جسے اس نے امرت کال کہا ہے ۔وہیں این ڈی اے کے اس فیصلے کے جواب میں کانگریس نے 10 سال نا انصافی کے دور کے نام سے ایک بلیک پیپر جاری کیا ہے جسے 2014 سے لیکر 2024 کے درمیان کی بات کہی گئی ہے ۔دونوں ہی دستاویز 50 سے 60 صفحات کے ہیں اور ان میں اعداد شمار ،چارٹ کی مدد سے الزام اور دعوے کئے گئے ہیں ۔کانگریس کے مطابق اس کا دستاویز حکمراں بی جے پی کی اقتصادی ، سماجی اور سیاسی نا انصافیوں پر مرکوز ہے ۔جبکہ حکومت کا جاری وہائٹ پیپر یو پی اے سرکار کی اقتصادی غلطیوں پر روشنی ڈالنے تک محدود ہے ۔معیشت کو لیکر کانگریس کا کہنا ہے کہ پی ایم مودی کا عہد بھارت میں بے روزگاری ، نوٹ بندی اور آدھے ادھورے طریقہ سے گڈ اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی ) نظام لاگو کرنے جیسے تباہ کن اقتصادی فیصلے ، امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتی کھائی اور پرائیویٹ سرمایہ کاری کے کم ہونے کا گواہ رہا ہے ۔دوسری جانب بی جے پی نے ویڈ بینک لون میں اچھال ، بجٹ گھاٹے سے بھاگنا ، کوئلے سے لیکر 2G انسپکٹرم تک ہر چیز کے الاٹ مینٹ میں دھاندلیوں کی ایک سیریز اور فیصلہ لینے میں اہلیت جیسے کئی الزام کانگریس پر لگائے گئے ہیں ۔بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے دیش میں سرمایہ کاری کی رفتار دھیمی ہوئی ہے ۔مختلف تجزیہ نگاروں کی رائے سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں ہی پارٹیاں ایک دوسرے کے بارے میں جو دعوے کررہی ہیں کچھ حد تک وہ صحیح باتیں بھی ہیں ۔ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں طرف سے الزامات میں کچھ سچائی ضرور ہے ۔دونوں نے ہی برے فیصلے لئے کانگریس نے ٹیلی کام اور کوئلے میں اور بھاجپا نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی میں لیکن یو پی اے بنام این ڈی اے کے دس برسوں کا موازنہ اقتصادی اعداد شمار پر ایک نظر ڈالنے سے دونوں کی پرفارمنس کی ملی جلی تصویر سامنے آتی ہے ۔اقتصادی ترقی لیکن سچ یہ ہے کہ بھارت کی معیشت پر عالمی معاشی بحران کے مقابلے کووڈ وبا کے قہر کا اثر زیادہ تھا ۔اس لئے تعجب نہیں کہ این ڈی اے کے عہد کے دوران ایک دہائی کی جی ڈی پی اوسطاً کم رہی ۔کووڈ نے معیشت کے سامنے زبردست بحران پیدا کر دیا ۔وہ بہت بڑا تھا اس وبا نے اس دہائی کے دوران کچھ سالوں کیلئے معیشت کی رفتار دھیمی ضرور کر دی ہے ۔اس سرکار نے بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط اور دیگر چیزوں کے علاوہ آخری پائیدان تک انتظامیہ میں بہتری لا کرکے آنے والے سالوں میں تیزی سے ترقی کی بنیاد رکھی ہے ۔ایکسپورٹ میں اضافہ شرح این ڈی اے کے مقابلے یو پی اے کے دور میں تیزی تھی یہ دونوں ہی کئی پہلوو¿ں کی وجہ سے ہے جیسے زمین ایکوائر چھوٹی فیکٹریوں کیلئے ماحولیات کی منظوری ملنے میں مشکل ،لمبے عرصے سے مینوفیکچرنگ ایکسپورٹ اضافہ کم رہا ۔حالانکہ اس کے کئی اسباب ہیں ۔ہیومن ڈولپمنٹ انڈکس پر پرفارمنس کے معاملے میں بھی این ڈی اے کی پرفارمنس یو پی اے کے مقابلے کم ہی ہے ۔اقتصادی پالیسی سازی بھی ایک لگاتار چلنے والی کاروائی ہے ۔جو الگ الگ سرکاروں کے درمیان چلتی رہتی ہے ۔جس میں سرکار اپنے سابقہ جانشینوں سے وراثت میں اچھے اور برے کام ملتے ہیں ۔کبھی کبھی ایک سرکار کے ذریعے کی گئی پہل یا قدم کو آنے والی سرکار آگے بڑھاتی ہے اور مضبوط کرتی ہے ۔کبھی کبھی سابقہ سرکار کے نتیجے کو بدل دیتی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟