کانگریس کی ہار انڈیا اتحاد کے لئے جھٹکا !

مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور راجستھان اسمبلی انتخابات کے نتیجے سے اپوزیشن پارٹیاں کے انڈین الائنس اتحاد کے وجود پر سوال اٹھنے لگا ہے ان انتخابات کو 2024 میں لوک سبھا چناﺅں کا سیمی فائنل مانا جا رہا تھا ۔جس میں کامیابی حاصل کرنے اور بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے کے ارادے سے 28 پارٹیوں نے اتحاد انڈیا بنایا کانگریس صدر ملکا ارجن کھڑگے نے انڈیا میں شامل پارٹیوں کی میٹنگ 6 دسمبر کو بلائی تھی اور اس میں چناﺅ ں نتائج پر غور ہونا تھا اب اس میٹنگ کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کیوں کہ سوال کھڑے ہو رہے ہیں کے ان نتیجوں کا اس اتحاد اور اس کے مستقبل پر کیا اثر پڑیگا؟ ایسا اس لئے بھی کیوں کہ نتیجوں کے بعد انڈیا کی اتحادی پارٹیوں نے کانگریس کے رویہ پر سوال اٹھائے ہیں ۔نیشنل کانگریس کے لیڈر عمر عبد اللہ نے کانگریس پر تنقید کی ہے اور کہا کانگریس نے چناﺅ کے دوران دو باتیں کی تھی وہ کھوکلی ثابت ہوئی اپوزیشن کو نظر انداز کرنے کا بھی الزام لگایا کانگریس صدر نے کہا چلئے 3 مہینے بعد انہیں ہم یاد تو آئے اسی طرح جے ڈی ےو نے بھی کانگریس پر تنز کیا پارٹی کے ترجمان کے سی تیاگی نے کہا ان انتخابات میں اپوزیشن کے طور پر انڈیا کہی بھی نہیں تھا اور نا ہے اور تاریخی طور پر سوشلسٹ پارٹیاں ان ریاستوں میں تھی لیکن کانگریس نے کبھی انڈیا اتحاد کے اپنے دوسرے ساتھیوں سے نا صلح لی اور نا ان سے رائے لی ترنمول کانگریس کے ترجمان کنال گھوش نے کہا ان ریاستوں کے نتیجے بھاجپا کی جیت سے زیادہ بھاجپا کی کامیابی کو کانگریس کی ناکامی کو زیادہ دکھاتی ہیں انہوںنے کہا کے پارٹی صدر ممتا بنرجی کو اپوزیشن اتحاد کا چہرا بنایا جا چاہئے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں گھوش کا کہنا تھا کے ٹی ایم سی ہی ایسی پارٹی جو بھاجپا کو ہرا سکتی ہے کچھ ماہرین کی رائے ہے یہ اچھا ہوا کے کانگریس یہ چناﺅ ہاری اس کا اس سے غرور ٹوٹے گا 2024کے لوک سبھا چناﺅ میں سیٹوں کے بٹوارے میں اب کانگریس حاوی ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اسے سیٹوں کا تال میل کرنا ہوگا وہیں جترویدی کا کہنا تھا کے کانگریس کو اس پر غور کرنا چاہئے کے بھاجپا سے سیدھے مقابلے میں سے کمی کہا رہ گئی یہ انڈیا اتحاد کی نہیں بلکہ کانگریس کی ہار ہے کیرل کے وزیراعلیٰ پی وجین کانگریس کے تئیں کچھ زیادہ ہی سخت نظریہ رکھتے ہیں انہوںنے کہا کے کانگریس نے پہلے ہی سوچ لیا وہ جیت چکی ہے اور اسے ہرایا نہیں جا سکتا یہی خیال اس کے زوال کا سبب بنا ۔کانگریس نے ان چناﺅ میں ایک موقع غوایا ہے ان انتخابات میں اپوزیشن پارٹیوں کا ساتھ لینے اور ایک سیاسی تبدیلی کی پہل کی جا سکتی تھی ۔جس سے انڈیا کے مشن کو مضبوطی ملتی ۔اتحاد بننے سے جو سیاسی شکل سامنے آتی وہ نہیں آ پائی ۔مدھیہ پردیش ،چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اگر کانگریس چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ لیکر اور سیٹوں کا تامل میل کرتی تو اسے یہ دن نا دیکھان پڑتا ۔سوال یہ ہے کیا کانگریس اس ہار سے کوئی سبق لیں گی ۔اور دوسری پارٹیوں کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کرے گی ؟(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟