کڈنی (گردے )بیچنے کا ریکٹ!

ایک بار پھر ناجائز طریقہ سے کڈنی کی خرید فروخت کا معاملہ سامنے آیا ہے اور ایک بار پھر اس معاملے سے اپولو اسپتال تنازعات میں گھر گیا ہے۔حلانکہ کڈنی ٹرانس پلانٹ سسٹم کو فول پروف بنانے کے لئے سخت قانون بنائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ جال سازی کا سلسلہ جاری ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے غلط کاغز پیش کر جانچ کمیٹی کو چکمہ دیا جا سکتا ہے کیوں کہ غلط کاغزات کو ویری فائی کرنے کا طریقہ سبھی جگہ نہیں اپنایا جاتا اور آج کل یہ اور بھی آسان ہو گیا ہے کیوں کہ فوٹو شاپ کے ذریعہ فرضی دستاویز تیار کرنا آسان ہو گیا ہے ۔صفدرجنگ اسپتال کے کڈنی ٹرانس پلانٹ سرجن ڈاکٹر انوپ کمار کہتے ہیں کے قانون تو بہت سخت ہیں لیکن ایک جگہ جہا پر جال سزی کی جا سکتی ہے وہ ہے فرضی دستاویزارات یہ صحیح ہیں یا نہیں ویری فائی کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ہم لوگ بہت سخت طریقہ اپناتے ہیں جو بھی کاغزات پیش کئے جاتے ہیں انہیں آن لائن چیک کرتے ہیں اور ان کی 2-3 مرتبہ جانچ کراتے ہیں آدھار کارڈ سے لیکر بلڈ تک کی جانچ رپورٹ چیک کرتے ہیں ۔اگر مریض ملک سے باہر کا ہے تو اسی سے پوچھتے ہیں اور کراس چیک کرتے ہیں ۔اب اگر امبیسی ہی غلط پیپر دے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔وہیں فوٹیز اسپتال شالی مار باغ کے ےورولوجی اور کڈنی ٹرانس پلانٹ ےونٹ کے ہیڈ ڈاکٹر وکاس جین نے کہا کے غلط دستاویزارات پیش کرتے ہی جھانسہ دیا جاتا ہے اگر کسی مریض کی بہنیں ڈونر ہیں تو پہلے یہ لوگ فرضی بہن کا آدھار کارڈ ووٹر کارڈ پاسپورٹ تیار کرا لیتے ہیں ۔ایچ ایل اے نمونہ ملان کی رپورٹ کی جانچ ہوتی ہے ۔اس لئے رپورٹ مریض کی اسلی بہن کی لگا دی جاتی ہے جس سے لگتا ہے کے ڈونر پہن ہی ہے ۔اب کمیٹی کے پاس کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے جسے وہ ویری فائی کرے ۔حلانکہ انہوںنے کہا کے یہاں تھرڈ پارٹی ایجنسی ہائر کی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ ان کاغزوں کو ویری فائی کروایا جاتا ہے ۔یہ مہنگا ہے لیکن ضروری ہے ہر اسپتال یہ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جین کاکہنا تھا ڈمانڈ اور سپلائی میں بڑا فرک ہے اگر 100 مریض ہے تو کڈنی ڈونر صرف 10% ہیں کوئی بھی سینٹر ایک ضابتے سے کہیں زیادہ ٹرانس پلانٹ کرتا ہے تو اس پر دھیان دےنا چاہئے اور جانچ ہونی چاہئے تاکہ اس طرح کی جال سازیوں پر لگام لگ سکیں بتا دیں لندن کے اخبار دا ٹیلی گراف نے اپولو اسپتال پر انٹر نیشنل کڈنی راکٹ میں شامل ہونے کا الزام لگایا ہے اس نے دعویٰ کیا ہے کے میامار کے غریب لوگوں سے کڈنی خرید کر مریضوں میں لگائی جا رہی ہے اس کا دعویٰ ہے کے اس کے رپوٹر کو میامار کے دلال نے ہیلٹھ کے ساتھ کڈنی اور انسانی عضاءکے ناجائز طور سے خریدکئے جانے کی جان کاری دی ہے فرضی کاغزات اور فوٹو وغیرہ کے ذریعہ یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کے عضاءڈونیٹ کرنے والا مریض کا رشتہ دار ہے ۔قانون کے مطابق بھارت میں عام حالات میں مریض ناواقف سے کوئی عضاءنہیں لے سکتا ہے دہلی سرکار نے پوری معاملے کی جانچ کرانے کی بات کہی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟