راہل گاندھی کے امریکہ دورے سے کیا حاصل ہوا ؟

اب سوال یہ ہے کہ راہل گاندھی کو اپنے امریکہ دورے سے کیا فائدہ ہوا ؟ کانگریس پارٹی کے ترجمان اکھلیش پر تاپ سنگھ کہتے ہیں ،دنیا نے ان کو بڑی سنجید گی سے سنا اور دنیا میں وہ اپنا بہت اچھا تاثر چھوڑ کر آئے ہیں۔ راہل گاندھی جی کانگریس پا رٹی کے صدر رہ چکے ہیں اور لوک سبھا کی ممبر شپ گنوانے کے بعد وہ امریکہ چلے گئے ۔آج کی تاریخ میں راہل گاندھی سرکار طور پر تو ان کی کوئی حیثیت ہے نہ نہیں تنظیم میں اور نہ ہی حکومت میں اور نہ ہی کسی ایوان میں لیکن ان کی دنیا میں ایک امیج بنی ہے۔ ان کی ایک آواز ہے ،ویژن ہے جسے دنیا جاننا چاہتی ہے ۔پارٹی کے ترجمان اکھلیش کہتے ہیں کہ ان کی بات کو نہ تو بھارت میں نظر انداز کر سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا میں کوئی ایسا نیتا ہے کہ اقتدار سے ہٹ جائے اور اتنے جذبے سے کوئی ان سے سننے جاتا ہو؟ بی جے پی کو ہی دیکھ لیجئے ،کسی سابق وزیر اعظم کو کسی نے پوچھاہے؟راہل گھاندھی کا امریکہ دورہ ایسے وقت ہوا ہے جب کرناٹک اسمبلی چناو¿ میں کامیابی سے پارٹی کا حوصلہ بڑھا ہے اور پارٹی اگلے سال کی عام چناو¿ کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہے تو کیا چناو¿ میں اس کا فائدہ مل سکتاہے؟ کے جواب میں خارجی پالیسی کے ماہر اور بھاجپا ممبر ڈاکٹر سبرو دھ مل دتہ کہتے ہیں ۔مختصر یہ ہے کہ راہل گاندھی کے امریکہ دورے کا تجزیہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ میں بھارت مخالف اور پاکیستان حمایتی طبقے کے سامنے کچھ سستی سیاسی بنیاد ہوسکتی ہے۔ بنیاد ہی نہیں اس کے علاقہ سیاسی طور پر کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے ۔ لیکن الکھلیش پر تاپ سنگھی کے مطابق امریکہ کے دورے سے راہل گاندھی کی باتیں اور ان کے خیالات دنیا والوں کے پاس پہنچے ہیں اس لئے ان کا دورہ کامیاب رہا راہل گاندھی کو ہر فلڈ ان کی جانکاری کتنی گہری ہے وہ لوگ بھی راہل جی کو سننے کے بعد اعتراف کر رہے ہیں کہ اس آدمی میں دیش او ردنیا کو ایک نئی دینے کی صلاحیت ہے او ر ویژن بھی لیکن حکمراں بی جے پی کی نظروں میں راہل گاندھی کے امریکہ دورے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ ڈاکٹر دتہ کہتے ہیں کہ مغرب کے ساتھ راہل گاندھی کا رومانس انہیں خوبصورت رومانٹک کہانی نہیں دیتا بلکہ انکی بھارت واپسی پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرناپڑتا ہے۔ واشنگٹن میں موجو دسینئر صحافی اجیت صحیح کہتے ہیں کہ ہندوستانی اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کا امریکی دورہ دو معاملوںمیں کامیاب رہا وہ بتاتے کہ ہیں کہ پہلا نو برس میں پہلی بار واشنگٹن ڈی سی میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی الگ اور پالیسی بنانے والوں کے سامنے لایا دوسرا ان کے دورے نے نو برسوںمیں پہلی مرتبہ ان ہزاروں ہندوستانی امریکیوں کو ایک مو قع فراہم کیا جو مودی کی سیاست سے خود کو الگ دیکھتے ہیں اور الگ الگ شہروں می بڑے گروپوںمیں اکٹھا ہوتے ہیں۔اور اتحاد کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!