ظلم ،گھناو ¿نیت کی انتہا!

سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہمارے سماج کو آخر کیا ہو گیا ہے؟ظلم کی ساری حدیں پار ہو گئیں ہیں ۔ ہمار ے سماج کی انتہا نربھیاسے شروع ہوئی اور یہ ظلمیت کا یہ دور رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ممبئی سے لگے مامندر علاقے میں ایک عورت کا قتل اور اس کی جیسی نوعیت سامنے آئی ہے اس نے ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کوئی شخص کیسے اس حد تک جا سکتا ہے ۔ اپنے ہی ساتھی کے خلاف اتنا بر بر ہو جائے ۔ ایک شخص منوج سانے نے اپنے ساتھ لیو ان ریلیشن میں ساتھ رہ رہی اپنی خاتون فرینڈ سرسوتی ویت کے مبینہ قتل کے بعد اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے کا جو طریقہ اپنا یا وہ اتنا گھناو¿نا اور اذیت اور بر بریت سے بھرا ہے کہ اس معاملے کی نوعیت کے بارے میں شبہ ہوتا ہے ۔ انسانیت کو دہلاکر رکھ دینے والا ممبئی کا یہ معاملے ہمیں شردھا والکر قتل کی یاد دلاتا ہے ۔ گزشتہ سال نومبر می دہلی میں یہ معاملہ سامنے آیا تھا ۔ دہلی پولیس کے مطابق پچھلے سال مئی میں 27سالہ لڑکی شرھا والکر کو آفتاب پوناوالا نے قتل کیا اور پھر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جنگل میں پھینگ دیا ۔ ایسے ہی ممبئی نیلا روڈ علاقے کی 56سالہ ملزم نے اپنی 32سالہ گرل فرینڈ و لیو ان پارٹنر کا قتل کر آری سے لاش کے ٹکڑے کر دئے اور بعد میں لاش کے ٹکڑے ایک ایک کرکے کوکرمیں ابالے ۔پولیس کو شبہ ہے کہ اس نے ابالا ہوا گوشت کتوں کو کھلایا ملزم منوج سانے اس کے باوجود پولیس جب دروازہ توڑ کر اندر گھسی تو بیڈ روم سے لیکر رسوئی تک رکھے ہوئے لاش کے ٹکڑے ،بال اور خون میں لتپت جرم کی حیوانیت گواہی دے رہی تھی۔رونگٹیں کھڑے کر دینے والے اس معاملے کی پوری سچائی تو جانچ کے بعد ہی سامنے آئے گی۔ لیکن اتنا تو صاف ہے کہ اپنے بوائے فرینڈ سے 24سال چھوٹی اور یتیم خانے میں پلی وہ ایسی سماج کی عورتوں کے موازنے میں ہی زیادہ اور عدم تحفظ کا شکار ہی ہوگی۔ پھر ایک سال پہلے ہوئے شردھا والکر قتل کے پسے منظر میں دیکھیں تو وہ بھی لیو ان ریلیشن مین رہ ہی تھی۔ کہا تو یہ جارہا تھا کہ وہ اجتماجی زندگی شادی کے مقابلے میں غیر محفوظ ہے ۔کیوں کہ اس میں کنبوں اور سماج کی وابستگی نہیں ہوتی ۔یوہی قتل آخر ایک گھناو¿نا جرم تو ہے ہی لیکن ممبئی کے اس واقعے سے ایسے معاملوں کا کئی بار ایک یقین کرنے میں وقت لگ جاتا ہے ۔ آخر ایک عام دکھائی دینے والا انسان کیسے ایسا ظالم ہو جاتا ہے کہ اپنی ہی ساتھی کو مار ڈالنے کے بعد خود بچنے کیلئے ظلمیت کی ساری حدیں پار کر جاتا ہے ۔پچھلے کچھ وقت سے ایسے واقعات اکثر دیکھے اور سنے جارہے ہیں جس میں لیو ان ریلیشن میں رہنے والے کسی مرد نے اپنی خاتون ساتھ کی نہ صرف جان لی بلکہ کو خود کو بچانے کے مقصد سے اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے کیلئے حساسیت کی ساری حدیں پار کری۔ سرکار سے لیکر سماج تک کو ایسے سخت قانون سے نمٹنے کے علاوہ اور کئی پہلوو¿ں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔لیو ان ریلیشن پر بھی تشویش ہونا فطری ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟